مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت

مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت

 13جماعتی اتحاد کی حکومت،جہازی سائز کابینہ، جس کے کئی ارکان آج بھی بے محکمہ ہیں،کرپشن مقدمات،منی لانڈرنگ،آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنسز سے کھال اور مال بچانے کیلئے کی جانے والی قانون سازی نے اس حکومت کا جواز پہلے روز ہی ختم کر دیا تھا،ان کارناموں کے بعد ان کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو کوئی کار ہائے نمایاں دکھائی نہیں دیتا،جیسے خود کو بچانے کیلئے قومی مفاد کیخلاف قانون سازی کی گئی ویسے ہی حکومتی امور چلانے کیلئے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر پروگرام لیا گیا،جس کے نتیجے میں معاشی مشکلات سے دوچار عوام پر ٹیکسوں اورمہنگائی کا بوجھ لاد کر ان کی کمر کو دہرا کر دیا گیا۔اب وزیر اعظم شہباز شریف خود کہتے ہیں کہ ”آئی ایم ایف نے ہمارے ہاتھ باندھ دئیے ہیں“ ان سے کوئی پوچھے ہاتھ باندھنے کیلئے کس نے آگے کئے اور کس نے ان کو رسی دی؟کیا یہ ان کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور حالیہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے ایماء اور آپ کی مرضی سے انجام نہیں پایا؟،اس کارکردگی کے باوجود حکومت کو الیکشن کرانے پر اعتراض ہے اورمدت پوری کرنے پر مصر ہے،اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع پر بھی غور ہو رہا ہے۔
  نیب قوانین میں ترامیم کو حکومتی حلقے جائز اور قانون و اخلاق کے مطابق قرار دیتے نہیں تھکتے مگر عمران خان کی ترامیم کیخلاف درخواست کی سماعت میں چیف جسٹس اور ساتھی معزز جج صاحبان کے ریمارکس قابل تعریف ہیں،چیف جسٹس نے فرمایا”ترامیم ادھوری اسمبلی نے کیں“ جسٹس اعجازالاحسن نے ریماکس دئیے ”جن لوگوں نے ترامیم کیں انہوں نے ہی اس کا فائدہ اٹھایا“ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اس حوالے سے نیت کا بھی ذکر کیا،ریمارکس حکمران طبقہ کیلئے قابل غور ہیں،لیکن انہی ترامیم کی بنیاد پر ن لیگ نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کر رہی ہے،جو اب صادق و امین نہیں رہے،جھوٹی بیماری کو آڑ بنا کر جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹس کے ذریعے معزز عدالت کو گمراہ کر کے علاج کیلئے 6ہفتہ کے لئے بیرون ملک گئے اور تین سال بعد بھی واپس نہیں آئے،ان کی ضمانت دینے والے شہباز شریف بھی صادق اور امین کے معیار پر نہیں اترتے کہ انہوں نے اشٹام پیپر پر عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مقررہ مدت میں واپس آئیں گے مگر نہیں آئے،اب جب کہ نیب کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر بار ثبوت بھی تفتیشی ادارہ پر ڈال دیا گیا ہے تو ان کی واپسی کی راہ ہموار ہو رہی ہے،یعنی بیماری سے نجات علاج اور ادویات سے نہیں بلکہ نیب ترامیم سے ملی۔
   عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کو اقتدار سے علیٰحدگی کے بعد سکھ کا سانس نہیں لینے دیا،پہلے لانگ مارچ اور دھرنے کے خوف میں مبتلاکئے رکھا،لانگ مارچ کا آغاز بھی کر دیا مگر وزیر آباد میں فائرنگ سے زخمی ہونے کے باعث وہ خود مارچ سے الگ ہو گئے،پھر انہوں نے اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں دھرنے کا تاثر دیا،شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ خود پنڈی آئے، اس دوران حکمرانوں کی نیند اڑی رہی،سب کا خیال تھا کہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کر کے دھرنا دیں گے،مگر اچانک انہوں نے تمام اسمبلیوں سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کر کے حکومت کو ایک نئی فکر میں مبتلا کر دیا،حکومتی زعماء جو سینے پر ہاتھ مار کر کہتے اور گارنٹیاں دیتے تھے کہ آپ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑیں ہم قومی اسمبلی توڑ دیں گے،مگر اس اعلان کے بعد ان کا رویہ ہی نہیں موقف اور رائے بھی بدل گئی،اب کہتے ہیں اسمبلیاں تحلیل کریں ہم ضمنی الیکشن کرا دیں گے،مگر حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی،آدھے سے زیادہ قومی اسمبلی کے ارکان سپیکر کو اپنے استعفے دے چکے ہیں،مگر ان کو منظور کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے اور جب ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی تو ضمنی الیکشن کیسے ہو گا؟ان کا خیال تھا عمران خان صوبائی اسمبلیوں سے بھی قومی اسمبلی کی طرح ارکان کو استعفے دینے کا کہیں گے اور جیسے انہوں نے مرکز میں حکومت بنا لی ایسے ہی ان صوبوں میں بھی حکومت سازی کر لیں گے،مگر عمران خان نے بھی ایک ایک کر کے اپنے پتے شو کئے اور ہر مرتبہ حکومتی اتحاد کے ہوش اڑا دئیے،اب حکومت بیک ڈور رابطے کر رہی ہے صدر مملکت عارف علوی کو مفاہمت کے پیغام دئیے جا رہے ہیں،عمران خان نے20دسمبر سے قبل اسملیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ اسمبلیاں دسمبر میں ہی تحلیل ی جائیں گی،اگر ایسا ہو جاتا ہے تو حکومت کے پاس عام الیکشن نہ کرانے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
   ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جن پر قابو پانے کیلئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو مضبوط اور مستحکم ہو جسے عوام کی مکمل حمائت حاصل ہو،جس کے سربراہ پر اعتماد کیا جا سکے،عالمی سطح پر جس کے بارے میں مثبت تاثر ہو،اور سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ میں عمران خان واحد ہستی ہے جو ملکی معیشت کیساتھ،اندرونی بیرونی خطرات سے نبٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،شدید مالی بحران کے باوجود پنجاب میں پرویز الٰہی تیزی سے قدم آگے بڑھا رہے ہیں،اگر چہ وہ فوری طور پر پنجاب اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے اس کے باوجود انہوں نے عمران خان کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے ہر فیصلہ پر آمین کہیں گے،پی ڈی ایم حکومت آج بھی پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا چکمہ دے رہی ہے مگر وہ کسی طور ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں،ان ابتر حالات میں بھی وہ عوام کی بھلائی کے منصوبوں میں مگن ہیں،کم سے کم اخراجات اور پہلے سے موجود افرادی قوت کو لیکر وہ عوام کی خدمت کے مشن پر کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
30 سال تک دست و گریباں رہنے والوں کو ایک میز پر بیٹھے،مشترکہ حکومت میں شامل ہونے،ایک دوسرے کی وکالت کرتے دیکھ کرعام آدمی حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے،اگر آج ان کا موقف درست ہے تو 30سال تک مخالفت کر کے عوام کو بیوقوف کیوں بنایا گیا،اب سب پر عیاں ہو چکا کہ یہ لوگ کرپشن کا پیسہ بچانے اور مقدمات سے نجات کیلئے متحد ہوئے ہیں اور ان کی مختصر حکومت میں جو کچھ دیکھا جا رہا ہے وہ مہر تصدیق ہے اس بات پر کہ اپنے گناہوں،ماضی کے کارناموں کی غلاظت کو چھپانے کیلئے یہ ایک دوسرے کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں،ورنہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں یہ لوگ متحد ہو کر الیکشن لڑتے جہاں روایات کے برعکس مرکز ی دھارے سے باہر پارٹی نے اکثریت حاصل کی ورنہ اب تک آزاد کشمیر میں وہی جماعت الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہے جو مرکز میں حکمران ہوتی ہے،اندرون ملک انتخابات سے فرار کی وجہ بھی شکست کا واضح دکھائی دینا ہے، پنجاب،کے پی اور کراچی میں ضمنی انتخابات کے نتائج اس کے گواہ ہیں،اس لئے یہ لوگ زیادہ سے زیادہ وقت اسی حکومت میں گزارنا چاہتے ہیں تاکہ نیب قوانین میں ترامیم جیسی قانون سازی کر کے خود،اپنے کاروبار کو بچا سکیں۔