جعلی تبدیلی کا کپتان

جعلی تبدیلی کا کپتان

آج پاکستان کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ عمران خان کا پونے چار برس کا دور ہے۔ یہ بات میں ببانگ دہل کہہ سکتا ہوں کہ یہ ”جعلی تبدیلی“ کا عنوان اور اس کا کپتان قوم کو لے ڈوبا ہے۔ یہ بات میں اس وقت بھی تسلسل سے کہہ رہا تھا کہ پاکستان کو یہ تجربہ بہت مہنگا پڑے گا۔ عمران خان خیالی دنیا میں رہنے والا شخص ہے جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف اور صرف اپنے گلیمر اور شہرت کو استعمال کرتے ہوئے مڈل کلاس کو کسی حد تک خاص طور پر نوجوانوں کوقائل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ اس ملک کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مسلسل ایک ہی تقریر کہ یورپ اورامریکہ بہتر نظام کی وجہ سے ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ اس ملک میں انصاف نہیں ہے۔ یہاں کرپشن ہے۔ ہم کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے تباہ ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان کا دوسرا منجن یہ تھا کیونکہ میں نے پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جتوایا ہے۔ قوم سے پیسے اکٹھے کر کے شوکت خانم بنوایا ہے۔ لہٰذا میں اب اس ملک کو چلانے کا بھی اصل حقدار ہوں۔ مجھے پاکستان کا وزیر اعظم بنایا جائے۔ اس ضمن میں عمران خان کا اصل ہدف نوجوان تھے۔ جو کسی تجربے کی کٹھالی سے نہیں گزرے تھے۔ جنھوں نے زمانے کا سرد گرم نہیں چکھا تھا۔ نوجوانی کی عمر ہی خواب دیکھنے کی ہوتی ہے۔ ہر نوجوان کے سامنے ایک مستقبل ہوتا ہے جس کی وہ آرزو رکھتا ہے۔ اسے پانے کے لئے ایک رہنما کی، ایک راستے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لگ بھگ 45 برس کی عمر میں سیاست شروع کرنے والے عمران خان آج 70 برس کی عمر میں بھی خود کو نوجوانوں کا لیڈر کہتے ہیں۔ بری بات یہ نہیں کہ وہ خود کو نوجوانوں کا لیڈر کہتے ہیں۔ افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ انھوں نے پورے ملک کی یوتھ کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ صرف پونے چار برس میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ لیکن بے حسی اور خود غرضی کی معراج شاید ہی پاکستان میں کسی اورشخص کو حاصل ہو جو خان صاحب کو حاصل ہے۔ یعنی آج بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے واحد نجات دہندہ وہ ہی ہیں۔ عمران خان کو 2018 کے الیکشن میں ایک نامکمل مینڈیٹ ملا۔ وہ خود سے حکومت بنانے کے قابل ہی نہیں تھے۔ جس طرح سے بھان متی کا کنبہ جوڑ 
کر عمران خان کو مسند پر بٹھایا گیا یہ ایک الگ داستان ہے۔ اس کا انجام سب نے عدم اعتماد کے دوران دیکھ لیا۔ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیر اعظم ہیں جنھیں ان کی ناقص کارکردگی اور ان کی حکومت کی انتہائی بُری گورننس کی وجہ سے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا۔ اس آئینی عدم اعتماد کو روکنے کے لئے عمران خان نے بطور وزیر اعظم ہر غیر آئینی حربہ استعمال کیا۔ کیا یہ ہوس اقتدار نہیں تھی؟ بالآخر سپریم کورٹ کو رات گئے انصاف کا دروازہ کھول کر متحدہ اپوزیشن کو ان کا آئینی حق دینا پڑا۔ عمران خان نے ہوس اقتدار میں ہر اس بات پر عمل کیا جس کے خلاف انھوں نے جدوجہد کا علم بلند کیا تھا۔ سب سے پہلے ان تمام جماعتوں سے ہاتھ ملایا جن پر انھوں نے چور، غدار اور ڈاکو کے فتوے عائد کئے۔ عمران خان ملک سے کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے تھے۔ ان کے دور میں کرپشن کا ریٹ بڑھ گیا۔ جو کام چوری چھپے کم ریٹ پر ہوتا تھا وہ اب اعلانیہ چار گُنا ریٹ پر ہونے لگا تھا۔ جن مافیاز کے خلاف وہ تسلسل سے میڈیا پر بات کر رہے تھے انہی کو اپنی حکومت میں وزیر، مشیر لگا دیا۔ چینی، گندم، گیس، ادویات سمیت زندگی کے ہر شعبے میں حقیقت میں مافیاز کا راج نظر آیا۔ اس سے قبل جب خان صاحب ہر تقریر میں مافیاز کا تذکرہ کرتے تھے تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں۔ لیکن خان صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے ہمیں ان چہروں اور کرداروں سے آشنا کرا دیا۔ یہ ہمیں تحریک انصاف حکومت کی چھتری تلے خان صاحب کے ارد گرد نظر آئے۔ ایک جانب مافیاز اور کارٹلز کے نمائندے خان صاحب کے ارد گرد تھے تو دوسری جانب نااہلی کا راج نظر آیا۔ پاکستان کے بالحاظ آبادی سب بڑے صوبے پنجاب میں ایک ایسا شخص وزیر اعلیٰ لگایا گیا جسے یہ یقین نہیں تھا کہ وہ ایم پی اے ہاسٹل میں کمرہ بھی حاصل کر سکے گا کہ نہیں۔ اسے 8 کلب روڈ اور وزیر اعلیٰ ہاؤس میں مالک و مختار بنا دیا گیا۔ عثمان بزدار نے پنجاب کے ساتھ سکھوں اور انگریزوں سے بھی زیادہ بُرا سلوک کیا۔ اس کی بڑی وجہ عثمان بزدار کی فیصلہ نہ کر سکنے کی صلاحیت، انتظامی امور میں ناتجربہ کاری اور شدید نااہلی تھی۔ جس شخص کو زیادہ سے زیادہ ضلعی سطح پر کسی ڈی پی او، ڈپٹی کمشنر سے واسطہ پڑتا تھا۔ اسے یک دم پورے صوبے کا مالک بنا دیا۔ آئی جی اور پورے صوبے کا سیکرٹری اس کے سامنے جوابدہ کر دیا۔ کسی عوامی نمائندے کے سامنے یہ جوابدہی بالکل بُری بات نہیں۔ لیکن کیا وہ شخص اس کا اہل تھا؟ بالکل بھی نہیں۔ جس آدمی نے اس تمام عرصے میں میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا۔ جس نے یہ اعتراف کیا کہ وہ ابھی کام سیکھ رہا ہے۔ کیا یہ عمران خان کی نئے پاکستان کی چوائس تھی۔ جو وعدے انہوں نے اپنے ووٹرز سے کیے تھے ان کا کیا بنا؟ اگر خان صاحب الیکشن سے پہلے قوم کو بتاتے کہ وہ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنائیں گے۔ پنجاب کے ووٹرز کی ایسی توہین کریں گے۔ تو یقین جانیں 2018 کے الیکشن میں پنجاب سے تحریک انصاف کی ضمانتیں ضبط ہو جانی تھیں۔ اس وقت ہر جانب ایک خوف ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور شدید بے یقینی کی کیفیت ہے۔ عمران خان پہلے کہتے تھے کہ مر جاؤں گا لیکن آئی ایم ایف کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاؤں گا۔ پھر شدت سے نہ صرف آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹایا بلکہ خود دو زانو ہو کر قرض لیا۔ خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ آتے ہی 8 ہزار ارب کا ٹیکس اکٹھا کریں گے لیکن بمشکل نصف ہو سکا۔ خان صاحب نے آمدن بڑھائی نہ خرچ کم کیا۔ تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا اور آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری نہیں کیں۔ اپنی ختم ہوتی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے آئی ایم ایف کو بھی دھوکا دیا۔ جس کا خمیازہ موجودہ حکومت بھگت رہی ہے۔ اپوزیشن اتحاد نے ملک بچانے کے لئے اپنی جماعتوں کے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگا دیا ہے لیکن جعلی تبدیلی کے کپتان عمران خان اسی شد و مد سے پھر جھوٹ کا پرچار کر رہے ہیں۔ کیا یہ ملک عمران خان صاحب کی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے بنا تھا؟ کیا خان صاحب کے تمام نعرے بے معنی اور تمام دعوے جھوٹے نہیں ثابت ہوئے؟ کیا اب بھی ان پر اعتبار اور اعتماد کیا جانا چاہئے؟ کیا وہ پھر سے ملک کے وزیر اعظم بننے کے اہل ہیں؟ یہ بات ہمارے ملک کے تمام با شعور افراد خصوصاً نوجوانوں کو سوچنی چاہئے۔ اس ملک کی کشتی ابھی بھنور میں آئی ہے، ڈوبی نہیں ہے؟ ملک کو اس حالت تک پہنچانے والے شخص کو دوبارہ برسر اقتدار لانا چاہئے؟ یہ میرا پوری یوتھ سے سوال ہے۔ ذرا سوچیں حالانکہ عمران خان اپنے مختصردور اقتدار میں پاکستان کی معیشت، اداروں کو تباہ کر چکے ہیں۔