ایک نیا سورج طلوع ہو جو اس دھرتی کو چمکا دے!

ایک نیا سورج طلوع ہو جو اس دھرتی کو چمکا دے!

ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ انتخابات پر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے، چلئے مان لیا پی ٹی آئی کی حکومت بن جاتی ہے تو وہ موجودہ معاشی و سماجی صورت حال کو کیسے ٹھیک کر سکے گی اس حوالے سے اُسے کھل کر بات کرنی چاہیے۔ اس کا جو پروگرام ہے وہ عوام کے سامنے لائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انتخا بات نہ ہوں ہونے چاہئیں مگر اب تک جو انتخابات ہوئے ہیں ان سے عوام کی حالت سدھر نہیں سکی انہیں غربت و افلاس سے چھٹکارا ملا نہ ہی ان کو بنیادی حقوق دیئے گئے لہٰذا اب جب بالکل ہی معیشت کا پہیہ جام ہو چکا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سوچ بچار کرنی چاہیے اور وہ موجودہ نظام کو بدلنے کے لئے ہو۔
 اس وقت ملک کی بڑی جماعتیں اقتدار میں ہیں اگر وہ چاہیں تو محدود پیمانے پر ہی سہی اس نظام کو بدلنے کی طرف آسکتی ہیں اور عوام کو چھوٹے موٹے ریلیف دے سکتی ہیں مگر کوئی ایک بھی سیاسی جماعت اس طرف توجہ مبذول نہیں کر رہی اور جوڑ توڑ میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔ نت نئے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جا رہے ہیں عوام کو اپنا گرویدہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ عوام کو معلوم ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ان سب نے لوگوں کے جذبات سے کھیلا ہے انہیں احمق تصور کیا ہے دھوکا دیا ہے اور دانستہ غربت سے نیچے رکھا گیا ہے پھر ہر کسی نے اس ملک کا خزانہ ہتھیایا ہے جسے باہر کے ملکوں میں پہنچایا ہے لہٰذا کوئی کسی پر الزام لگائے،بُرا کہے، نا کام کہے یا نا اہل کہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا عوام نے ان سب کو اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے جانچ لیا ہے ان کے ”کارنامے“ بھی ان کے سامنے ہیں اور ان کے سیاہ و سفید سے متعلق وہ پوری طرح آگاہ ہیں لہٰذا ان سیاسی جماعتوں اور ان کے مشیروں کو نیا انداز سیاست متعارف کرانا چاہیے مگر اس میں عوام کے دکھوں کا مداوا موجود ہونا چاہیے تبھی وہ ان کی کسی بات پر یقین کریں گے اور متوجہ ہوں گے۔ یہ جو رولا ڈالا ہوا ہے ہر جماعت نے اس سے کوئی بھی متاثر نہیں ہو رہا لہٰذا اگر کوئی جماعت چاہتی ہے کہ وہ عوام میں مقبول یا مزید مقبول ہو وہ خدمت کے راستے پر آئے۔ بصورت دیگر وہ باتوں، دعووں اور وعدوں سے لوگوں کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتی یہ جو پی ٹی آئی کو مقبولیت حاصل ہے یہ آنے والے دنوں میں کم ہو جائے گی کیونکہ جذبات کی رو میں جتنا بہنا تھا عوام نے وہ بہہ چکے اب جب ان کے جذبات ٹھنڈے ہوئے ہیں تو انہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں کوئی پروگرام نہیں معاشی بحران سے نکلنے کا۔ پھر وہ یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ عمران خان کے گرد جو لوگ ہیں انہوں نے عام آدمی کی حالت زار کو بہتر نہیں بنانے دینا کیو نکہ ان کا تعلق اشرافیہ سے ہے عام کارکن تو اب بھی پیچھے ہیں جبکہ وہ اپنے لیڈر کی ہر آواز پر گھروں سے نکلے ہیں۔ ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا مگر دکھائی دے رہا ہے کہ وہ اختیارات سے محروم ہیں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آئندہ وہ کچھ نہیں ہوگا جو عام لوگ یعنی کارکنان چاہتے ہیں۔
 ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
کہا ان سیاسی رہنماؤں کی طرف سے بہت کچھ جاتا ہے مگر عمل بیس تیس فیصد ہی ہوتا ہے دراصل یہ لوگ اپنے آشیر بادیوں کو خوش رکھتے ہیں مگر وہ انہیں پالیسیوں اور منصوبوں میں آزادی نہیں دیتے تا کہ عوام میں خود مختاری کا خیال نہ پیدا ہو سکے اور وہ ان کی شرائط کے حصار میں مقید رہتے ہوئے خوشحالی کی منزل سے دور رہیں۔ یہ تو ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ جن حالات سے دو چار رہتے ہیں انہیں جن تکالیف سے واسطہ پڑتا ہے ان کے پیش نظر اپنے عوام پر اعتماد کریں اور انہیں سہولتوں سے ہمکنار کریں تا کہ وہ ان کی پشت پر کھڑے ہوں اور کوئی بھی بڑی طاقت ان پر اپنی شرائط مسلط نہ کر سکے۔ مگر ابھی تک انہیں کوئی سمجھ نہیں آئی یہ بار بار وہی کچھ کرتے ہیں جو پچھلے ادوار میں کر چکے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک ترقی نہیں کر سکا لوگوں کو سکون و آرام میسر نہیں آسکا۔ وہ ہر دور میں پریشان رہتے ہیں انہیں جو امید ہوتی ہے کہ اب ان کے دن 
پھرنے والے ہیں وہ ایک دو برس کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔حکمران اپنا عرصہ اقتدار کبھی پورا کر لیتے ہیں تو کبھی ادھورا چھوڑ کر گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری وساری ہے مگر زندگی میں کوئی قوس قزح نہیں ابھری، ہر طرف خزاں نظر آتی ہے بہار کا ہر ایک رنگ پھیکا پڑ چکا ہے اور اس وقت پی ٹی آئی جو ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے مگر ہمیں نہیں لگ رہا کہ انتخابات کے بعد بھی کوئی خوشگوار تبدیلی آ سکے گی کیونکہ قرضوں کا ایک انبار ہے جسے ہٹانے کے لیے نعرہ مستانہ بلند کرنا ہو گا جو یہ جماعت بلند نہیں کر سکی۔ دوسری کوئی بھی جماعت جو منظر پر موجود ہے اس کے بس میں نہیں کیونکہ انہیں عوام کو نہیں اقتدار کے بادشاہوں کو راضی کرنا ہے لہٰذا عوام کی غالب اکثریت مہنگائی، بے روز گاری، بھوک اور نا انصافی کے ہاتھوں گھائل ہے۔ اب بھی تمام سیاسی جماعتیں اپنااپنا راگ الاپ رہی ہیں اپنے اقتدار کے لیے ہی بھاگ دوڑ کر رہی ہیں خود کو اقتدار کے اہل ثابت کرنے کے لیے نئے نعروں کے نقاب پہن رہی ہیں مگر پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے اب وہی لیڈر کامیاب ہوگا جس نے کچھ کیا ہے یا کچھ کر سکتا ہے اور پینترے نہیں بدلتا اقتدار کے حصول کے لیے خود کو کسی بڑی طاقت کا مرہون نہیں سمجھتا مگر ایسا ہمیں ایک بھی دکھائی نہیں دے رہا سبھی اقتدار کی خاطر عوام پر قرضوں کا بوجھ لادنے کو تیار نظر آتے ہیں بڑی طاقتوں کی آشیر باد لینا چاہتے ہیں ایسا کب تک ہوگا معلوم نہیں۔ بہر کیف صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے معیشت نے عام آدمی کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے لہٰذا وہ نئے کھلاڑیوں کی طرف دیکھ رہا ہے جو اس کے حالات بدلنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور سیاست کے میدان میں آنے سے پہلے بھی خدمت خلق میں مصروف ہوں قبضہ گروپوں، ملاوٹیوں، مظلوموں، سینہ زوروں اور غنڈوں سے نبردآزما ہوں۔ خیرموجودہ نظام نے عوام کی سانسوں کو بے ترتیب کر دیا ہے ان کے ہر سپنے کو توڑ کر رکھ دیا ہے ان کے بچے روشن مستقبل سے فاصلے پہ جا کھڑے ہوئے ہیں انہیں اسے زندگی سے بیزاری ہونے لگی ہے لہٰذا وہ ایسے لوگوں کو آگے لانا چاہتے ہیں جو ان کو انصاف دلا سکیں ان کو مہذب و ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کریں کیونکہ اب ان میں مزید ستم سہنے کی ہمت نہیں رہی لہٰذا اب وہ ایک نیاسورج طلوع ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جو اس دھرتی کو چمکا دے۔