اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا غالب کی 149ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا غالب کی 149ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

لاہور :مرزا اسد اللہ خاں غالب کا شمار منفرد اسلوب کے حامل اردو زبان کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ان کی 149 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

اردو ادب میں مرزا نوشاہ کے نام سے معروف مرزا اسد اللہ خان غالب کی ولادت آگرہ میں ہوئی۔ابتدائی ایام مصیبت و آلام میں گزارے،شاعری شروع کی اور پہلے اسد اللہ خان اسد اور پھر اسد اللہ خان غالب کی حیثیت سے اپنا مقام پیدا کیا۔

مرزا غالب اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔

ہوس کو ہے نشاطِ کارکیا، نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا

نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا، کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

تصوف کی بات کریں تو غالب کہتے ہیں:

یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

عشق کا رنگ ہو تو :

ان کے دیکھے سو چہرے پہ آجاتی ہے رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

المیہ شاعری تو ہر شاعر کی جان ہوتی ہے تو غالب کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں مگر اس میں ان کی حقیقت پسندی اسے ایک نئے رنگ میں ڈھال دیتی ہے:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

انہیں انسانی نفسیات کا گہرا شعور تھا جس کی مثال یہ شعر ہے:

ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

طویل مضامین کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ہی غالب کی شاعری کا کمال ہے، جیسے:

ملنا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہ ہے کہ دشوار بھی نہیں

روزمرہ زبان سے بھی ان کے اشعار میں نکھار پیدا ہوا:

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن

خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

انہیں عظمت انسانی کا بہت پاس تھا جب ہی تو کہتے تھے:

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا

شوخی و ظرافت میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

مرزا نوشاہ نے زندگی کے تلخ حقائق کو جس قدر قریب سے دیکھا اور برتا اُنہیں اتنے ہی میں سادہ و رنگین انداز میں بصورت شعر بیان کردیا۔اس بات پر تمام اہل قلم وادب کا اجماع ہے کہ غالب کی شاعری اردو کو مستقبل میں ثروت مند کرتی رہے گی۔


مرزا غالب کو جہان فانی سے عالم بقا کی جانب سدھارے اگرچہ 149 برس بیت چکے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرزا نوشاہ نے آج یعنی لمحہ موجود کے لیے شاعری کی تھی۔