پنجاب کے کالجز :اساتذہ کی پے پروٹیکشن کامسئلہ

Shakeel Amjad Sadiq, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ایک چوہا کسان کے گھر میں بِل بنا کر رہتا تھا۔ ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں۔ چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے۔ خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوہے دانی تھی۔ خطرہ بھانپنے پر اس نے گھر کے پِچھواڑے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوہے دانی آ گئی ہے۔کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس سے کیا؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟
مایوس چوہا یہ بات مرغ کو بتانے گیا۔ مرغ نے بھی مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے بالآخر چوہے نے جا کر بکرے کو بھی یہ بات بتائی۔ جسے سن کر بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا اور یہی کہا کہ جاؤ میاں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔اسی رات چوہے دانی میں پھٹاک کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا۔
اندھیرے میں اس کی دم کو چوہا سمجھ کر کسان کی بیوی جب اسے نکالنے لگی تو سانپ نے اسے ڈس لیا۔
طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا۔ جِس نے اسے کبوتر کا سوپ پلانے کا مشورہ دیا۔  کبوتر ابھی برتن میں ابل ہی رہا تھا کہ خبر سن کر کسان کے کچھ رشتہ دار عیادت کو آ پہنچے۔ جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مرغ کو ذبح کر دیا گیا۔کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی۔ جِس کے جنازے اور تعزیت پر آنے والوں کی ضیافت میں بکرا کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ جب کہ چوہا تو کب کا دور جا چکا تھا۔ بہت دور جا چکا تھا۔
پے پروٹیکشن ایک گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے۔جس طرح ایک نہیں دو پاکستان کی آوازیں گونج رہی ہیں۔اسی طرح پے پروٹیکشن کے متاثرین اساتذہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔کچھ اساتذہ کی تنخواہوں سے کٹوتی پورے جوبن کے ساتھ جاری و ساری ہے اور کچھ اساتذہ اس بدعت سے مبرا ہیں۔ایک ہم اساتذہ ہیں جو اپنے حق میں آواز اٹھانے سے گریزاں ہیں بلکہ اس معاملے پر سوچنا بھی گورا نہیں کرتے۔ ہمیں تو چاہیے تھا کہ ہم پابجولاں ہو کر اس دوڑ میں شامل ہو جاتے اور تادم آخر اس مسئلے سے لڑتے۔ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے۔مگر ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ مجھے کیا؟جو ہوگا دیکھا جائے گا۔مجھے اس سے کیا لینا دینا؟میرا کونسا اکیلے کا نقصان ہو رہا ہے۔میں بھی سب کے ساتھ ہی ہوں۔ہمارے ہاں بھی عجیب منافقت پائی جاتی ہے۔ہم اپنا نقصان تو برداشت کر لیتے ہیں مگر پورے گروہ یا پوری ایک نسل کے نقصان کو جو بھر بھی اہمیت نہیں دیتے۔سائنس کے اساتذہ کا رویہ اس قدر کربناک ہے کہ ناقابل بیان ہو جاتا ہے۔ان کا رویہ ہے کہ چلیں ہماری اکیڈمیز اور ٹیوشن سنٹر تو ہمیں ماہانہ لاکھوں دے رہے ہیں۔ہمیں اس جمگھٹے میں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟یہ وقت اور یہ توانائی ہم اپنے کام میں صرف کرتے ہیں۔لے دے کے آرٹس والے رہ جاتے ہیں۔انہیں بھی ایک آدھ دن جوش آتا ہے۔وہ بھی نعرے لگا کر اور بینر اٹھا کر اپنے شکستہ دل کو تسلی دے لیتے ہیں۔پھر پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔   2002-05ء بیج والے اساتذہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔2002ء کے بیج والے اساتذہ کو ان کی حتمی سلیکشن کے دس ماہ بعد نان ٹرانسفر 
ایبل بنیادوں پر پنجاب کے دور دراز علاقوں پر تعینات کیا گیا۔ان کو صرف ان کی بنیادی تنخواہ 6210 روپے دی جاتی رہی۔تین سال تک حکومت بجٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ اضافہ کرتی رہی مگر ان اساتذہ کو صرف سالانہ انکریمنٹ دے کر ٹرخا دیا جاتا۔اس کے بعد 2005ء کابیج آیا تو سب کی تنخواہ دس ہزار برابر کر دی گئی اور ہارڈ ایریا میں تعینات اساتذہ کو دو ہزار زائد کا لالچ دے دیا گیا۔پھر ان دونوں بیجوں کو 2009ء میں مستقل کیا گیا۔۔۔پہلے بیج سات سال کی سروس کے بعد اور دوسرا بیج تقریباً پانچ سال بعد مستقل کیا گیا۔سب سے کم نقصان 2009ء والے بیج کو ہوا۔اب جب کٹو تی کا مسئلہ درپیش ہو گا تو بھی نقصان ان دونوں بیجوں کا ہے۔ہم اب عمرکے اس حصے میں ہیں جہاں ضروریات در ضروریات جنم لینے میں کوئی کسرنہیں چ چھوڑتیں۔بچوں کی پڑھائی،ان کی ضروریات اور اس کے بعد ان کی شادیاں۔۔۔ان ضروریات سے سر مو انحراف نہیں کیا جاسکتا۔۔لہٰذا بہت ضروری کے کہ ہم اپنے اپنے حصے کی شمع جلائیں اور پے پروٹیکشن کے مسلے کو حل کروائیں۔اگر ہم چوہے،بکرے اور سانپ جیسا رویہ رکھیں گے اور اجتماعی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو ہم سب اپنا نقصان کروا بیٹھیں گے لہٰذا جب کبھی بھی کوئی آپ کو اپنا مسئلہ بتائے اور آپ کو لگے کہ ’’یہ میرا مسئلہ نہیں ہے‘‘ تو انتظار کیجیے اور دوبارہ سوچیے۔اس پر ورک کیجیے بلکہ اس کو اپنے پلان میں لا کر سوچیے!کہ کہیں ہم سب خطرے میں تو نہیں ہیں کیونکہ اگر سماج کا ایک حصہ، ایک طبقہ، یا ایک شہری بھی خطرے میں ہے تو یقینا ہم سب خطرے میں ہیں۔ذات، مذہب اور طبقے کے دائرے سے باہر نکلیں،صرف اپنی ہی ذات تک محدود مت رہیے، دوسروں کا بھی اِحساس کیجیے۔ ان کے مسائل کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجیے کیونکہ پڑوس میں لگی آگ آپکے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے۔بقول خوبصورت لہجے کے باکمال جاوید رامش ؔ
میں بیچنے ہی لگا تھا نیام اور تلوار 
پھر آستیں سے اچانک عدو نکل آیا

مصنف کے بارے میں