سعودی عالم کا سنیما اور موسیقی کے بارے میں نیا فتویٰ

سعودی عالم کا سنیما اور موسیقی کے بارے میں نیا فتویٰ

ریاض: سعودی مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے خبردار کیا ہے کہ سنیما اور موسیقی کے پروگرامز 'اخلاقی زوال' کا سبب بن سکتے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سعودی مفتی اعظم نے نیوز ویب سائٹ 'سبق' کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا کہ 'سعودی عرب میں سنیما اور میوزیکل کنسرٹس کی اجازت دے دی جائے تو خدشہ ہے کہ لوگ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجائیں گے'۔

سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے انٹرٹینمنٹ کی جانب سے میوزیکل کنسرٹس کے لیے لائسنس کے اجراء اور سنیما گھر کھولنے پر غور کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مفتی اعظم نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

مفتی اعظم نے خبردار کیا کہ ' سینما گھروں میں ایسی فلمیں دکھائی جا سکتی ہیں، جو آزاد خیالی، واہیات پن، بداخلاقی اور لادینیت کو فروغ دیں اور ان فلموں سے سعودی ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے'۔

موسیقی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عبدالعزیز الشیخ نے کہا کہ 'میوزیکل کنسرٹس میں بھی کوئی اچھی بات نہیں موسیقی اور سنیما کی اجازت دینا مرد و زن کے اختلاط کی اجازت دینے کے مترادف ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے ابتداء میں مرد و خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ نشستیں مختص کی جائیں لیکن آہستہ آہستہ دونوں ایک ہی مقام پر اکھٹے ہوجائیں گے اور اس سے اخلاقایات اور اقداد تباہ ہوجائیں گے'۔

مفتی اعظم نے کہا کہ 'البتہ ثقافتی اور سائنسی میڈیا کے ذریعے تفریح فراہم کرنے میں کوئی برائی نہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ برائی کو داخل نہ ہونے دے'۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ برس اپریل میں وژن 2030 کے نام سے ترقی کے نئے اہداف کا تعین کیا تھا جن میں سیاحت اور تفریح کے فروغ کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی

عوام کو تفریح فراہم کرنے کے تناظر میں سعودی عرب میں انٹرٹینمنٹ اتھارٹی نے بھی کئی ایونٹس کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے تاہم گزشتہ ماہ سعودی عرب کے مغرب میں ایک یونیورسٹی میں امریکی اسٹینڈ اپ کامیڈین مائیک ایپس کا شو منسوخ ہوگیا تھا۔

گزشتہ برس بھی سعودی مفتی اعظم نے شطرنج کو اسلام میں ممنوع قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شطرنج ناصرف جوئے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے بلکہ یہ وقت کا ضیاع بھی ہے۔

سعودی عرب میں سنیما، مردوں اور عورتوں کی مخلوط محفلوں اور شراب پر پابندی عائد ہے، اس کے علاوہ خواتین کو ڈرائیونگ کی بھی اجازت نہیں جبکہ روز مردہ کے دیگر کام کرنے کے لیے بھی انہیں اپنے مرد سرپرست سے اجازت درکار ہوتی ہے۔