قانون خاموش‘ لوگ زندگی سے بیزار

قانون خاموش‘ لوگ زندگی سے بیزار

پورے ملک میں قانون نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی سویلین ادارے اپنی من مرضی کر رہے ہیں۔ اس طرح دکاندار سے لیکر ریڑھی بان تک دیہاڑی دار سے لیکر ٹھیکیدار تک سب کے سب دھوکا دہی کا بازار سجائے بیٹھے ہیں مگر قانون پر عمل درآمد کروانے والے اہلکار آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اْدھر سستی زمینیں لیکر مہنگے داموں فروخت کرنے والامافیا غریب عوام کو لوٹ رہا ہے، اشیائے صرف سٹاک کر کے بیچنے والے تاجر حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں وہ چیز جو انہوں نے ایک سو روپے میں خریدی ہوتی ہے اسے روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی قیمت کے حسا ب سے صارفین کو دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ ناجائز منافع خوری ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ان دنوں سر یا والے دکاندار ہوں یامل مالک وہ چھ مہینے پہلے خریدا گیا سریا موجودہ بڑھتے ہوئے دام کے ساتھ فروخت کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں ایسا کبھی اور کہیں بھی نہیں ہوتا وہاں ناجائز منافع خوری کا سرے سے رجحان نہیں ہمارے ہاں اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ مہنگائی و ناجائز منافع خوری ایک طرف ناپ تول میں بھی ہیرا پھیری کی جاتی ہے ایک کلو سے لیکر ایک من تک میں  کم تولا جاتا ہے پھر معیار بھی ناقص ہوتا ہے۔ ذرا دودھ کو دیکھیے کہ اس میں دھڑلے سے ملاوٹ کی جاتی ہے پانی کی ملاوٹ تو قابل برداشت ہو سکتی ہے جو کیمیکل اور پاؤڈر اس میں شامل کرتے ہیں وہ بہت تکلیف دہ بات ہے مگر ان لوگوں کو کسی کا ڈر خوف نہیں لہٰذا پورے سماج میں دھوکا با ز سر گرم عمل نظر آتے ہیں انہیں اگر کوئی روکے ٹو کے تو وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہم کوئی اکیلے ایسا کررہے ہیں سبھی ایسا کر رہے ہیں اور اگر ہم نہ بھی کریں گے تو کیاہوگا۔
اس اجتماعی بگاڑ کی ذمہ داری اہل اقتدار پر عائد ہوتی ہے مگرشاید وہ مافیاز کے ہاتھوں بے بس ہیں یا پھر انہوں نے دانستہ انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ان سے اپنی سیاست کا ری میں تعاون حاصل کیا ہوتا ہے انتخابات کے دوران کمپین کے کچھ اخراجات بھی ان کے ذمہ ہوتے ہیں لہٰذا ان لوگوں سے منہ پھیرنا یعنی انہیں نظر انداز کرنا ان کی ”مجبوری“ بن جاتی ہے۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ہمارے حکمران اصلاح معاشرہ بذریعہ قانون کیوں نہیں چاہتے ویسے حکمران طبقہ جب خود دو نمبری کر ے گا اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوگا تو چھینا جھپٹی کے منظر کو ابھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہرحال ہماری سماجیات بری طرح سے متاثر ہے لوگ بے چارے انتہائی پریشان ہیں انہیں اب واقعتاً مفلسی نے آن گھیرا ہے وہ جو پہلے اپنے اعضا بیچتے تھے اب ان میں اور اضافہ ہو چکا ہے بیماریوں نے انہیں جیتے جی مار دیا ہے انہیں پوری خو راک میسر نہیں اب اور بھی اس میں کمی آگئی ہے۔ آٹا انہیں قطاروں میں کھڑے ہو کر مل رہا ہے وہ بھی غیر معیاری‘ اس میں غذائیت نام کی کوئی شے نہیں بس پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ غریب عوام کے مقابل امیروں کو اعلیٰ معیار کی اشیائے ضروریہ میسر ہیں۔ وہ بڑی بڑی عالیشان رہائشوں میں قیام پذیر ہیں ان کے کئی کئی نو کر چا کر ہیں لاکھوں کروڑوں کی ان کی ماہانہ آمدن ہے حکمران طبقہ کی تو ہمیشہ پانچوں انگلیاں گھی میں رہتی ہیں وہ ڈھٹائی کے ساتھ اپنے الاؤنسز اور تنخواہیں بڑھاتے رہتے ہیں۔ کمیشن بھی کھاتے ہیں ٹھیکے بھی لیتے ہیں غبن بھی کرتے ہیں اور قومی خزانے پر ہاتھ بھی صاف کرتے ہیں لہٰذا انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی انہیں آٹے دال کا بھاؤ کیا ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ تو غریبوں سے کوئی پوچھے کہ وہ کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سرکاری ملا زمین سے بھی کوئی ان کا حال احوال پوچھے کہ جن کا تنخواہوں پر انحصار ہوتا ہے جو اب مہنگائی کے تناسب سے انتہائی قلیل ہیں لہٰذا وہ حکمرانوں کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں کہ وہ ان کی حکومتوں کا ایک اہم پرزہ ہوتے ہیں لہٰذا انہیں سہولتیں فراہم کرنا ان کا فرض اولیں ہونا چاہیے مگر یہ ایک خواہش ہے حکمران کب ایسا سوچتے ہیں یا سوچیں گے کیونکہ وہ اقتدار میں آتے ہیں اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے اپنے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے لہٰذا  ملازمین ہوں یا عوام وہ ان کو خوشحال بنانے کا نہیں سوچتے بلکہ ان سے زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کی صورت  وصولی کرتے ہیں مگر حالات پھر بھی ٹھیک نہیں ہوتے یہ جو بجلی گیس اور پٹرول ہیں ان کو بھی آئے روز مہنگا کر کے عام  لوگوں کی رگوں سے خون کشید کرتے ہیں اگر وہ ایسا نہ کرتے ہوتے تو آج  ڈیفالٹ ہونے کا بھی کوئی امکان نہ ہوتا۔ پچھتر برس کے بعد ہر شہری کو زندگی کے ضروری لوازمات دستیاب ہوتے انصاف سستا اسے مل رہا ہوتا۔ حکومتوں میں اس کی شمولیت بھی یقینی ہوتی مگر یہاں وہ کچھ نہیں ہوا جس کا خواب دیکھا گیا  ہمارے حکمرانوں نے  لوگوں کو کھلا دھوکا دیا مایوس کیا ان کے حصے کی دولت ہتھیائی گئی۔ جسے اقتدار کے حصول کے لیے استعمال میں لایا گیا۔ طلسماتی خواب گاہیں تعمیر کی گئیں بڑے بڑے کاروباری مراکز قائم کیے گئے۔ یوں یہاں وہ ترقی نہ ہو سکی جو مہذب ممالک میں نظر آتی ہے۔یہاں تو ایسا بگاڑ پیدا ہوا ہے کہ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا جارہا ہر امیر غریب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور خود کو بڑا اہم تصور کرتا ہے جبکہ اس کی امارت کا کھوج لگایا جا ئے تو معلوم ہوگا کہ اس نے بہت سوں کا حق سلب کیا ہے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے ملاوٹ کر کے مال کمایا ہے۔ قبضہ گیری کر تا رہا ہے۔غنڈہ گردی کر کے کروڑوں نہیں اربوں اکٹھے کیے گئے۔ 
بہرکیف ہمارا سماج سخت قوانین ہی سے سدھرے گا علاوہ ازیں اسے بنیادی حقوق دینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جب بنیادی انسا نی حقوق شہریوں کو دے دیئے جاتے ہیں تو وہ کسی غلطی کوتاہی پر پشیمان ہو جاتے ہیں انہیں مکاری عیاری اور ریاکاری نہیں کرنا پڑتے پھر انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ اگر وہ کوئی معمولی جرم کے بھی مرتکب ہوں گے تو دھر لیے جائیں گے لہٰذا اس وقت اہل اختیار کو ایک  ایسا نظام متعارف کرانا چاہیے جس میں عوام کو راحت ملے اور اپنے ہونے کا احساس ہو بصورت دیگر حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے جن کا اثر ہر کسی پر پڑے گا کسی پر کم یا زیادہ ہو گا مگر وہ متاثر ضرور ہو گا لہٰذا اہل اقتدار و اختیار سیاست کاری بھی کریں مگر عوام کی دگرگوں حالت پر بھی ترس کھائیں۔ نہیں تو وہ اپنے حقوق کے لیے باہر نکل کھڑے ہوں گے جنہیں روکنا نا ممکن ہوگا کیونکہ وہ تنگ آ چکے ہیں۔ کسی نے بھی ان کے بارے میں غور نہیں کیا سبھی کرسی کے لیے بے قرار و بے چین دکھائی دیتے ہیں، اس وقت جو سیا سی منظر ہمارے سامنے ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں انہیں فقط اپنے عیش و آرام کے لیے متفکر ہونا ہے مگر اس طرز عمل سے وہ اہل نظر کی نگاہوں میں گرتے جا رہے ہیں۔