’’مفت۔آہ‘‘

’’مفت۔آہ‘‘

دوستو، نئے سال کا مالی بجٹ وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایسا پیش کیا کہ عوام کی ’’مفت۔آہ‘‘ نکل گئی۔۔بجٹ میں کیا کچھ بتایا گیا، کیا کچھ نافذ ہونے والا ہے، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ۔۔یہ بجٹ عوام کے لئے بلکہ ملک کو معاشی ایمرجنسی سے بچانے کے لئے اور دیوالیہ پن سے بچنے کے لئے بنایاگیا ہے۔ ۔ہمارے ذہنی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ بجٹ کی ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ جب ہم شاپنگ کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو دکاندار اور مارکیٹ والے ہمیں اچھی سمجھا دیتے ہیں کہ ۔۔بھائی جان، بجٹ آگیا ہے، مہنگائی ہوگئی ہے۔پہلے یہ چیز اتنے کی تھی ، اب اس پر اتنے پیسے بڑھ چکے ہیں۔۔ دودھ کراچی میں ڈیڑھ سو روپے سے ایک سوستر کا ہو گیا۔۔ درمیانے سائز کی ڈبل روٹی جو پچھتر روپے کی ملتی تھی، اب نوے روپے کی مل رہی ہے۔ دوسوبیس روپے کلو ملنے والا دہی اب دوسوچالیس کا مل رہا ہے۔بچوں کا ڈائپر جو ایک ہزار پچاس روپے کا تھا اکیس سو روپے کا مل رہاہے۔المیہ یہ ہے کہ یہ ریٹ بجٹ کے بعد نہیں بلکہ بجٹ پیش ہونے سے چند روز پہلے بڑھے تھے۔۔پٹرول مہنگاہوا تو اب بس والے ایک اسٹاپ کا تیس روپیہ وصول کررہے ہیں۔ رکشہ اور ٹیکسی والوں کی تو بات ہی چھوڑیں۔۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے ہرسال جون کے مہینے میں لوگوں کو خوفزدہ ہوتے ہی دیکھا ہے۔ تاہم 90ء کی دہائی کے بعد یہ ڈر کسی حدتک کم ہو گیا کیونکہ یہ سالانہ ٹریلر اب ہرپندھواڑے پر دکھایا جانے لگا۔ یعنی جب سے پٹرولیم مصنوعات ' بجلی کی قیمتوں نے پرپندرہ دن کے بعد اڑان شروع کررکھی ہے اس کے بعد سے لگتا ہے کہ ہرچیز ہی اڑان بھرتی دکھائی دیتی ہے۔ ویسے تو حاکمین کا فرمان عالی شان کتنا غور طلب ہے کہ بجلی 'پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھلا کہاں غریبوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ان بیچاروں کو پتہ کیا ہوگا جیسا کہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی کم سن امریکی طالبہ کے سامنے پرچہ آیاجس میں غربت کے حوالے سے مضمون لکھنے کو کہاگیا ' طالبہ نے لکھا کہ فلاں فلاں ایک بہت ہی غریب آدمی تھا' اس کے گھر میں تین تین گاڑیاں موجود رہتی تھیں اس کے بچے ہروقت گاڑیوں میں گھومتے رہتے ہیں 'بچے بڑے ہی شوق سے پیزا کھاتے ہیں اور پیپسی پیتے ہیں ' وہ دن ہو یا رات ہروقت ہی سوتے رہتے ہیں' جب جی چاہتا ہے سوجاتے ہیں اورجب جی چاہتا ہے جاگ جاتے ہیں ' وہ ہروقت گاڑیوں میں گھومتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی وہ غریب ہیں۔ ہمیں تو معروف بھارتی آنجہانی گلوکار ’’کے کے‘‘ کا مشہور گانا بری طرح سے یاد آرہا ہے۔۔تڑپ ،تڑپ کر اس دل سے آہ نکلتی رہی۔مجھ کو سزا دی پیارکی،ایسا کیا گناہ کیا؟؟(یہ پٹواریوں کے دل کی آواز ہے) تو لٹ گئے ہاں لٹ گئے (یہ پوری قوم پکار رہی ہے)۔تو لٹ گے ہم تیری محبت میں ۔۔عجب ہے عشق یارا ۔۔پل دو پل کی خوشیاں ،غم کے خزانے ملتے ہیں، پھر ملتی ہیں تنہائیاں۔۔کبھی آنسو کبھی آئیں کبھی شکوے کبھی نالے، تیرا چہرہ نظر آئے ۔۔تیرا چہرہ نظر آئے مجھے دن کے اجالوں میں تیری یادیں تڑپائیں ،تیری یادیں تڑپائیں راتوں کے اندھیروں میں تیرا چہرہ نظر آئے(یوتھیئے اپنے کپتان کو یاد کررہے ہیں)۔ مچل مچل کے اس دل سے آہ نکلتی رہی ،مجھ کو سزا دی پیار کی ،ایسا کیا گناہ کیا ،تو لٹ گئے ہاں لٹ گئے ،تو لٹ گے ہم تیری محبت میں (یہ پٹواری کف افسوس ملتے ہوئے کہہ رہے ہیں)۔
موجودہ بجٹ سچائی کی علامت بن کرسامنے آگیا ہے کہ پہلے سے ہی مفلوک الحال ' خون سے محروم جسموں والے عوام کا خون نچوڑنا بھی خالہ جی کاگھر نہیں مگر بھلاہو ، حکومت کا ' انہوں نے یہ ناممکن بھی ممکن بنادیا ہے' چنددن قبل ایک اسپتال جانا ہوا ' ہمارے ساتھ جو مریض تھاان کا بلڈ ٹیسٹ ضروری تھا، تاہم مشکل یہ بن آئی کہ اسپتال عملہ کاایک جوان گھنٹہ بھر کی محنت کے بعد وہ رگ تلاش نہیں کرپایا جہاں سے وہ خون نکال سکے۔ وہ جب تھک ہارکر واپس گیاتو دوسراآیا اس نے دو چار تھپیڑے الٹے ہاتھ پر مارے اور پھر سوئی رگ میں گھونپ دی۔ہم حیران رہ گئے کہ اس نے پوری سرنج ہی خون سے بھرکر باہر نکالی، پہلے والا ساتھ کھڑا حیرانی سے دیکھ رہاتھا 'ا سکی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر باہر کو ابل رہی تھیں' اس نے اشاروں اشاروں میں اس کی وجہ پوچھی تو دوسرے والا ہاتھ نچاتے ہوئے بولا ۔۔صبح میں ایف بی آر میں کام کرتا ہوں، شام کو اس اسپتال میں پارٹ ٹائم۔۔ایک پہلوان نے 10 سوکھے لیموں نچوڑ کر پورا ایک گلاس جوس نکال لیا،لوگ حیرت سے اسے دیکھتے رہے،اس کے بعد اس نے لوگوں کو چیلنج کیا کہ کوئی ہے جو 20 لیموں نچوڑ کر بھی اتنا جوس نکال سکے جتنا اس نے 10 لیموں سے نکالا ہے،لوگ خاموش رہے،کوئی آگے نہیں بڑھا،سوائے ایک آدمی کے،اس آدمی نے پہلوان سے کہا ،میں تمہارا چیلنج قبول کرتا ہوں،میں 20لیموں سے نہیں،بلکہ صرف 10 لیموں سے ہی اتنا جوس نکالوں گا،اور ہاں لیموں بھی وہ جس سے تم پہلے ہی نچوڑ کے سارا رس نکال چکے ہو،سارا مجمع اسے پاگل سمجھنے لگا،پہلوان بھی اسے حیرت سے دیکھنے لگااور لوگوں کو نہایت حیرت اس وقت ہوئی جب اس شخص نے یہ معجزہ کر کے دکھا دیا۔ان سوکھے ہوئے 10لیموں سے ایک گلاس رس اور نکال کے دکھایا،پہلوان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا،اس نے حیرت سے پوچھا۔۔بھائی!تم بھی پہلوان ہو؟وہ آدمی بولا ۔۔نہیں، میں وزیرخزانہ ہوں۔۔ایک خاتون صحافی۔۔ مہنگائی پر دل ہلادینے والا ایک مضمون لکھنا چاہ رہی تھی۔۔مگر بات نہیں بن رہی تھی۔۔ کسی نے مشورہ دیا کہ مضمون لکھنے سے پہلے غربت میں پسے ہوئے لوگوں سے ملو۔ ان کی باتیں اور حالات مضمون میں تحریر کرو۔۔وہ مشاہدہ کے لئے غریبوں کی بستی میں گئی۔وہاں ایک بھکاری ملا۔ اس سے پو چھا۔ بابا جی آٹا مہنگا ہو گیا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بھکاری حیرت سے کہنے لگا، بی بی جی واقعی آٹا مہنگا ہو گیا ہے،آپ کی بڑی مہر بانی مجھے بتا دیا۔ کم بخت دوکاندار مجھ سے اب تک پرانے بھاو پہ آٹا خرید رہا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہمارے ہاں آمدنی کم بتاؤ تو رشتہ دار عزت نہیں کرتے، زیادہ بتاؤ تو اُدھار مانگ لیتے ہیں نہ دو تو گالیاں دیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں