غدر اور غداری

غدر اور غداری

کہتے ہیں بغاوت کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتا ہے اور انقلاب ناکام ہو جائے تو اسے بغاوت کہا جاتا ہے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی ناکام ہو گئی تو غدر کہلائی، 1947ء کی تحریک کامیاب ہو گئی، تحریکِ آزادی کہلائی۔ سوال یہ ہے کہ آپ تاریخ کے کس جانب کھڑے ہیں۔ اگر ’’سٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھنے والی قوتوں کے ساتھ کھڑے ہیں تو ہر وہ تحریک جو اس نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، غدر ہے، بغاوت ہے، فتنہ ہے۔ ’’سٹیٹس کو‘‘ یعنی مال و مفاد کے نظام نے جنہیں مقام، مرتبہ اور دولت دی ہے، ان کے لیے نظام کا گرنا ان کے گھر کی چھت گرنے سے بڑا سانحہ ہے۔
چند برس قبل ترکی جانے کا اتفاق ہوا، میں نے ان کے فوجی میوزیم دیکھے تو اندازہ ہوا کہ ان کے ہاں تاریخ کا وژن ہمارے وژن سے خاصہ مختلف ہے۔ وہاں جرمنی کا ہٹلر اور اٹلی کا مسولینی ولن نہیں، بلکہ وہ قوم پرست لیڈر اور ہیرو ہیں، اس کے برعکس ان کے تاریخی نصاب میں برطانیہ کا ونسٹن چرچل ایک ولن ہے، ظالم ہے اور غاصب ہے۔ ظاہر ہے ترک قوم انگریزوں کے خلاف لڑی تھی، جب آپ کسی قوم کے خلاف لڑتے ہیں تو ان کے ہیرو آپ کے ولن ہوتے ہیں اور آپ کے ہیرو ان کے ولن۔ یہ بات باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اس پُرحکمت بات کے عین مطابق ہے کہ دوست تین قسم کے ہوتے ہیں— دوست، دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن۔ اسی طرح دشمن بھی تین قسم کے ہوتے ہیں— دشمن، دوست کا دشمن اور دشمن کا دوست!! اس پیرائے میں دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہنود، یہود اور امریکی سامراج میں سے کون ہمارا سجن ہے اور کون دشمن۔ اس کائناتی کلیے کے برعکس جتنا بھی دماغ لڑائیں، خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ ہٹلر ہیرو ہے اور چرچل ولن— یہ بات اگر یہاں کسی ’’پڑھے لکھے‘‘ انگریزی دان کو بتائی جائے تو وہ بتانے والے کی دماغی حالت پر شک کرے گا، اور اس شک میں وہ ’’حق‘‘ بجانب بھی ہو گا، کیونکہ یہاں انگریزی پڑھانے والوں کو انگریزوں نے پڑھایا ہے، ظاہر ہے انہوں نے اپنے ہیرو کو ہمارا ہیرو بنایا اور اپنے دشمن کو کتابوں ہمارا ولن لکھوایا۔ ہمارے ہاں چرچل گویا دانائی کی علامت ہے، ہم اپنی کتابوں میں یہ نہیں بتاتے کہ اس خون آشام جرنیل نے کتنے لاکھ قتل کیے اور بنگال کے قحط میں اس کا کیسا خونی رول تھا۔ ہٹلر یہودیوں کا دشمن تھا، ہمارا تو نہیں۔ یہودیوں کے دیے ہوئے نظام اور نصاب میں یہ کیسا ہنر ہے کہ ہم بھی آج بھی اہلِ مغرب کی ہمنوائی میں جنگِ عظیم کی اصل ’’وجہ‘‘ ہٹلر کو قرار دیتے ہیں۔ غلامانہ ذہنیت کی انتہا یہ ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ڈھائی جانے والی نیوکلیائی قیامت کی امریکی توجیہہ بھی دبے لفظوں قبول کر لیتے ہیں۔ جب غلامی قبول کر لی تو اپنے زمینی آقاؤں کا نصابِ فکر و زیست بھی ہنسی خوشی قبول کر لیا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جب تحریک آزادی میں مسلمانوں کو ہندوؤں سے علیحدہ قوم ثابت کرنے کے لیے مسلمان قوم کا سیاسی مقدمہ لڑا تو اس میں سرفہرست یہ دلیل تھی کہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ہمارے ہیرو ان کے ولن ہیں اور ہمارے ولن ان کے ہیرو ہیں۔ اس مقدمے میں محمد علی جناح جیت گئے، مسلمانوں کے قائدِ اعظمؒ کہلائے، ہیرو کہلائے، اگر خدانخواستہ وہ پاکستان کا مقدمہ ہار جاتے تو آج لوگ انہیں انتہا پسند اور علیحدگی پسند ولن کے طور پر پڑھ اور پڑھا رہے ہوتے۔ والدِ محترم بتاتے ہیں کہ 70 کی دہائی تک ہماری درسی کتابوں میں 1857ء کی جنگِ آزادی ’’غدر‘‘ کے نام سے پڑھائی جاتی رہی ہے۔ نصابی کتابوں میں ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ باقاعدہ ایک امتحانی سوال ہوا کرتا تھا۔
المیہ یہی ہے، ملک بن گیا نصاب ابھی تک نہ بن سکا۔ دراصل نصابِ تعلیم ہمارا طرزِ فکر متعین کرتا ہے، طرزِ فکر ہمارے عمل کا تعین کرتا ہے اور عمل کا تسلسل ہمارے کردار کو متشکل کرتا ہے۔ قومیں طرزِ فکر سے بنتی ہیں۔ اگر طرزِ فکر منتشر ہو تو قوم اور قومی کردار کی تشکیل کیسے ممکن ہے؟ پچھلے دنوں جب یکساں نصابِ تعلیم کی آواز اٹھی تو اِس پر بڑی لے 
دے ہوئی۔ بین الاقوامی تعلیمی مافیا کے وظیفہ خوار بہت چیں بہ جبیں ہوئے۔ کسی نے کہا سیاسی سٹنٹ ہے، کسی نے کہا ناممکن ہے۔ اگر ڈنمارک، ناروے، جرمنی اور فرانس میں یکساں تعلیمی نصاب رائج ہے تو یہاں کیوں نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ تو نسلی اور لسانی اعتبار سے ایک قوم کی حیثیت سے یوں بھی جڑے ہوئے ہیں، ان سے کہیں زیادہ یکساں نصابِ تعلیم ہمیں درکار ہے کہ ہمارے ہاں لسانی اور نسلی اعتبار سے درجنوں قومیں آباد ہیں۔ انہیں ایک زبان، فکر اور سوچ میں پرونے کی ضرورت ہے۔ زبان اپنی تاریخ اور تہذیب ساتھ لے کر آتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم انگریزی پڑھیں اور چرچل کو غاصب لکھیں۔ یہ ممکن نہیں کہ انگریزی بولیں اور پینٹ کوٹ اور نکٹائی سے خلع حاصل کر لیں۔ یہ بحث انگریزی کے وکیلوں کو قطعاً پسند نہیں آئے گی، لیکن کیا کریں، لوگوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھیں یا سچ بولیں اور سچ لکھیں۔ جہاں قابلیت کسی ہنر میں یکتائی کے بجائے انگریزی لکھنے اور بولنے کی مہارت پر موقوف ہو، وہاں ایک ملک کے قیام کے بعد بھی ’’دو قومی نظریہ‘‘ پھلتا پھولتا رہے گا۔ ایک ’’قوم‘‘ انگریزی زبان بولتی رہے گی اور دوسری غلام اور کمی کمین ’’قوم‘‘ اپنی مقامی و مادری زبان۔ انگریزی بولنے اور بلوانے والے ہمہ وقت اپنے اصل وطن یعنی انگلستان کی طرف ’’ہجرت‘‘ کرنے کے خیال میں ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جہاں سے فکر آیا ہے، وہی مقام اس فکر کا مرجع و مقصود ہو گا۔ کسی زبان سے دشمنی مقصود نہیں، بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ آج تک جس قوم نے بھی ترقی کی ہے، اس نے اپنی زبان میں ترقی کی۔ کہتے ہیں انگریزی سائنس کی زبان ہے، اس لیے سائنس میں ترقی کے لیے انگریزی ناگزیر ہے۔ اگر اس دلیل میں ذرہ برابر بھی وزن ہوتا تو فی زمانہ روس، چین، فرانس اور جرمنی سائنس کے میدان میں مطلق جاہل ہوتے۔ کہتے ہیں معاشی آزادی کے بغیر سیاسی آزادی بے معنی ہے، لیکن سیاسی اور معاشی آزادی سے پہلے فکری آزادی کی فکر کرنی چاہیے کہ درحقیقت یہی حقیقی آزادی ہے۔ جب فکر و نظر آزاد ہو گی تو سیاسی اور معاشرتی میدان میں ہمارے خوب اور ناخوب بدل جائیں گے۔
آمدم برسر مطلب، اب زبان سے بیان کی طرف اور لفظ سے معانی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اپنی مملکتِ وجود کی سرحدوں کے ہم بھی محافظ ہیں۔ یہ وجود درحقیقت مالک الملک ہی کا ایک ملک ہے۔ ہمارے اندر کا شیطان باہر کے شیطان کی آشیر باد سے یہاں شورش برپا کرتا ہے۔ شیطان اور شیطان کے چیلے ہمیں نفس کی غلامی کی طرف لے کر جاتے ہیں، رحمان اور عباد الرحمان ہمیں آزادی کی دعوت دیتے ہیں۔ حقیقی آزادی ہماری فکر کا قبلہ تبدیل کر دیتی ہے۔ قرآن میں ہے کہ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔ ابلیسی طرزِ فکر میں خوف اور لالچ زندگی میں حرکت کے بنیادی محرکات ہیں، رحمانی طرزِ فکر ہمیں سکون، امن، سلامتی، خدمتِ خلق اور طعام المسکین کی رغبت دلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطانی نظامِ زر میں سودی قرض کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے جبکہ رحمانی نظامِ فکر میں صدقہ، خیرات اور قرضِ حسنہ پر زور دیا جاتا ہے۔ ایک نظام کا ہیرو دوسرے نظام کا ولن ہے۔ مادی طرزِ فکر میں سیٹھ ساہوکار ہیرو ہے، غریب مسکین ایک ولن ہے۔ روحانی طرزِ فکر والوں کی نظر میں ہاتھوں سے کمائی کرنے والا اللہ کا دوست ہے، یہاں مسکین غریب قریب ہے— یہاں غریب اللہ کے حبیبؐ کے قریب ہے۔ یہاں امیر غریب سے ڈرتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ ضروت سے زاید کو اس کی راہ میں خرچ کر دینے کا حکم ہے، وہ کہیں اس حکم کی زد میں نہ آ جائے، اس لیے وہ دولت تقسیم کرنے کے نت نئے طریقے سوچتا ہے، وہ خواہش اور ضرورت کے مخمصے میں گرفتار رہتا ہے۔ طاقتور ہو کر عاجز رہنا کمزوروں کی سوچ و بچار کرنا یہاں ہیروشپ ہے— افکارِ غیر میں غریب کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں۔
جس طرح غدر کی تعریف اپنے اور غیر کے ہاں مختلف ہے، اسی طرح غدار کی تعریف بھی اندزِ فکر بدل جانے سے بدل جاتی ہے۔ بہرطور دانا لوگوں نے کچھ ایسی تعریفیں بھی متعین کی ہیں جو کائناتی سچائیوں کی طرح ہر جا یکساں معنی رکھتی ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے غداری کی ایک آسان فہم تعریف کی ہے۔ ’’کرن کرن سورج‘‘ میں لکھتے ہیں— ’’غداری: ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینا‘‘ اس پیرائے میں دیکھیں تو ہم میں سے کون کہاں کہاں غداری کا مرتکب ہو رہا ہے، واضح ہو جاتا ہے۔ میری مملکتِ وجود کا مالک حقیقی مالک الملک ہے، یہاں اگر میں اپنے ذاتی اغراض و مفاد کے لیے شب و روز بسر کرتا ہوں اور اپنا وقت اور سرمایہ ذاتی تعیش کی نذر کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں اس مملکتِ وجود سے وفاداری کے بجائے غداری کا مرتکب ہوتا ہوں۔ شیطان— میرا اور میرے رب کا دشمن ’’عدو میبن‘‘ ہے— میری وفاداری سے ناخوش اور غداری سے خوش ہو گا۔ اس کے نزدیک یہ آزاد روی ہی گویا آزادی ہے، لیکن درحقیقت یہ شیطان کے پنجہ استبداد میں گرفتاری ہے اور نفسانی قوتوں کی غلامی ہے۔ رحمان کی بندگی شیطان سے آزادی کا پروانہ ہے۔ درویش کا جملہ ہمہ جہت ہوتا ہے، ظاہر و باطن میں یکساں لاگو ہوتا ہے۔ مرشدِ خیال حضرت واصف علی واصفؒ نے فرمایا ’’آزادی کی صرف ایک ہی قیمت ہے، بیداری اور مسلسل بیداری‘‘ یہ بیداری شب بیداری بھی ہو سکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں