موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل ؟

موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل ؟

موجودہ وقت میں اگر ہم پاکستان کے کسی بھی علاقے کے شہریوں سے یہ سوال پوچھیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ کیا ہے؟ تو یقیناً اس کا جواب یہی ہو گا کہ بڑا مسلہ فی الوقت صاف شفاف انتخابات ہیں ۔جی ہاں وقت پر صاف شفاف انتخابات کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ پہلی بار ملک میں جمہوری حکومتیں ایک عشرہ مکمل کرنے جا رہی ہیں۔ پاکستان کو بنے ہوئے ستر برس سے زائد ہو چکے ہیں اب تک سب سے زیادہ وقت فوجی حکومتوں کے پاس رہا ہے جس میں ملک کو بے تحاشہ نقصان ہی پہنچا ہے ۔ ہر ذی شعور انسان سمجھتا ہے کہ ملک کا مستقبل جمہوری حکومتوں کے ساتھ ہی جڑا ہے ۔ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت کا ساتھ چولی دامن کا ہے ۔ کبھی مارشل لاء لگتا ہے اور کبھی جمہوری حکومت بنتی ہے۔یہ خوش آئند بات ہے کہ اللہ اللہ کر کے لوگ اب مارشل لاء کا لفظ بھولتے جا رہے ہیں اور بھولیں بھی کیوں نہ کہ اس مارشل لاء سے ملک دس پندرہ برس پیچھے چلاجاتا ہے۔ لو گ اب ذی شعور ہوتے جا رہے ہیں ۔


یہ الگ بات ہے کہ ان دو ادوار میں جو وزراء اعظم قومی خزانہ لوٹنے کے سبب برطرف کئے گئے انہیں کوئی سزا نہیں ہوئی۔ ان کو سزا ضرور ملنی چاہئے تا کہ آئیندہ آنے والی حکومتیں ان سے سبق سیکھ سکیں ۔


اگر ہم عوامی حلقوں سے یہ پوچھیں کہ کون ملک کی بہتری کے لئے صحیح امیدوار ہے تو اس پر عوامی رائے ایک دوسرے سے کافی مختلف نظر آتی ہے ۔ کوئی کس جماعت کا حامی ہے اور کوئی کس کا۔ مزے کی بات یہ کہ یہاں ایک اور ٹرینڈ بھی آ چکا ہے کہ اگر کوئی کسی سیاسی لیڈر کا نام لے کہ یہ ملک کو بچائے گا ترقی کی راہ پر لائے گا تو اسے بعض حلقوں کی جانب سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا ہے یا پھر کوئی پاک فوج کی قربانیوں کو سراہتا ہے اسے خراج تحسین پیش کرتا ہے تو اسے بھی اینٹی جمہوریت تصور کیا جاتا ہے ۔ اس پر ہر شخص آزاد ہے جو جس پارٹی کو چاہے ووٹ دے کیونکہ اپنی مرضی سے جس پارٹی کو ووٹ دے یہ اس کا آئینی حق ہے۔ خواہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دے ، ن لیگ کو دے یا پھر کسی دوسری پارٹی کو۔


چونکہ اب انتخابات قریب ہیں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان عبوری وزیر اعظم کے نام پر بھی غور ہو رہا ہے ۔ جب حکومتی وقت مکمل ہو تا ہے تو ایک نگران سیٹ اپ بنتا ہے جس کی دو مہینہ مدت ہوتی ہے ۔ نگران وزیر اعظم کے ذمے ہوتا ہے کہ وہ صاف شفاف انتخابات کروائے اپنا فریضہ ادا کرے اور رخصت ہو ۔ جس کی تلاش ابھی تک جاری ہے ۔ نہ جانے کس کی قسمت جاگنے والی ہے ۔ کون نگران وزیر اعظم بنے گا یا پھر کسے بطور نگران وزیر اعظم ہمارے اوپر مسلط کیا جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
بہر کیف دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہاں کی عوام اپنی حکمرانی چاہتی ہے ۔ اسی طرح پاکستانی عوام بھی اپنے حلقے کے امیدواروں پر اعتبار کرتی ہے اور انہیں اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کرتی ہے اس لئے ہمارے سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ صدق دل سے توبہ کر کہ عوام سے معافی مانگیں اور ان کی خدمت کریں کیونکہ ہر توبہ جو صدق دل سے کی جائے وہ قبول ہوتی ہے ۔ اس لئے مارشل لائی سیاستدانوں کو بھی چاہئے وہ توبہ کریں اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ پاکستان کے بہت سارے مسلئے مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے لئے محنت اور مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسائل کے حل کے لئے اور ملکی ترقی کے لئے جمہوریت کو مستحکم کرنا ضروری ہے ۔ سیاست دانوں کو بھی بے جا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے پر ہیز کرنا ہو گی۔ بہترین جمہوریت ملکی بقا ء و سلامتی کی ضامن ہے۔


عوام کو اب انتخابات میں فیصلہ کرنے کا پورا پورا حق دیا جا رہا ہے اس لئے عوام انتخابات میں ایسے نمائندوں کا انتخاب کرے جن پر لوٹ کھسوٹ کے الزامات نہ ہوں ، جنہوں نے کوئی بدعنوانی نہ کی ہو ، جنہوں نے ملکی خزانے کو ذرا نقصان نہ پہنچایا ہو۔

سراج احمد تنولی

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)