ڈی جے والے بابو…

ڈی جے والے بابو…

دوستو،سائنس کہتی ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن کراچی والے کہتے ہیں کہ سورج صرف کراچی کے گرد ہی گھومتا ہے۔ویسے گھوم تو شہرشہر ہمارے کپتان بھی رہے ہیں ان کی دیکھا دیکھی محترمہ مریم صفدر صاحبہ بھی نگر نگر گھوم رہی ہیں۔ دونوں کے جلسوں میں ایک مماثلت دیکھی جارہی ہے وہ یہ کہ دونوں لیڈران جب تقریر کے درمیان وقفہ لیتے ہیں، سانس لینے رکتے ہیں یا ’’پوز‘‘ لیتے ہیں تو ڈی جے والا بابو فوری طور پر ولولہ انگیز ترانہ لگادیتا ہے،جسے سن کر مجمع میں برقی لہر دوڑ جاتی ہے اور پھر نعروں کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے۔جلسوں میں انرجی ’’ڈی جے والا بابو‘‘ فراہم کرتا ہے اور وہ بے چارہ پس منظر میں ہوتا ہے جسے کوئی جانتا بھی نہیں۔۔
یہ واقعہ باباجی نے سنایا، آپ کی نذر کرتے ہیں۔۔ایک آدمی سڑک پہ جا رہا تھا ، پیچھے سے آواز آئی،رک ورنہ مر جائے گا۔۔وہ آدمی رک گیا، سامنے ہی ایک آئل ٹینکر اچانک الٹا اور اس میں آگ بھڑک اْٹھی، وہ آدمی بال بال بچ گیا۔۔وہی آدمی اگلے روز باغ کی سیر کر رہا تھا کہ آواز آئی رْک جا ، ورنہ مارا جائے گا۔۔ وہ آدمی فوراً رْک گیا۔۔ عین سامنے ایک درخت کڑکڑاتا ہوا گرا اور وہ آدمی صاف بچ گیا۔۔ وہی آدمی اگلے روز پچاس کی دہی لینے دودھ کی دکان پہ جارہا تھا کہ آواز آئی رْک ، ورنہ مر جائے گا۔۔ وہ رْک گیا۔۔ اسی وقت سامنے والے کھمبے سے ایک تار ٹوٹ کر گری ، اور وہ آدمی صاف بچ گیا۔۔وہ شخص وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور سر جھکا کر بولا۔۔اے میرے مددگار،تُو کون ہے؟ میرے سامنے آ، میں تیری تعظیم بجالاناچاہتا ہوں، تیرا شکرگزار ہونا چاہتا ہوں۔۔وہی آوازآئی۔۔ میں رحمت کا فرشتہ ہوں اور بے ہوشوں ، آلسیوں ، غائب دماغوں کی مدد کرتا ہوں۔۔اس آدمی نے کہا، اے نیک دل فرشتے ، تو اس وقت کہاں تھا جب میں پی ٹی آئی کو ووٹ دے رہا تھا۔۔ وہی آواز پھر آئی ،آوازیں میں نے تب بھی بہت دی تھیں ، لیکن تیرے DJ نے بیک گراؤنڈ میْوزک بہت اْونچا کر رکھاہوا تھا ۔۔۔
باباجی کا ہی فرمان ہے۔۔محبت ہو جائے تو صدقہ دینا شروع کر دیں، محبت ہو گی تو مل جائے گی، بلا ہوئی تو ٹل جائے گی۔ ۔باباجی سے ہی ہم نے سنا ہے کہ۔۔بعض خاوند اپنی بیویوں کو بے پناہ چاہتے ہیں اور بعض تو بس پناہ چاہتے ہیں۔۔ بیوی نے لاڈ بھرے انداز میں شوہر سے کہا ۔۔شادی کیا ہوئی، آپ نے تو مجھے پیار کرنا ہی چھوڑ دیا۔۔شوہر نے برجستہ جواب دیا۔۔ ’’ارے پگلی، امتحان ختم ہونے کے بعد بھلا کون پڑھتا ہے‘‘۔۔الزام تراشی کی انتہا دیکھیں۔۔بیگم شوہر پر غصے سے دھاڑتی ہوئی بولی۔۔یہ کیسا آٹا اٹھا لائے، میری تو ساری روٹیاں ہی جل جاتی ہیں۔۔کہتے ہیں کہ شوہر وہ واحدہستی ہے، جسے اسلام کے ارکان کا کچھ پتہ ہو یا نہ ہو، یہ ضرور پتہ ہوتا ہے کہ چار شادیاں ان کا حق ہے۔۔۔ ایک صاحب بڑی خوشی خوشی اپے گھر میں داخل ہوئے، بیوی کو تلاش کیا تو وہ کچن میں مصروف ملی، وہ بھی کچن میں داخل ہوگیا اور بیوی سے پوچھنے لگا۔۔ ہمارے چار بچوں میں سے تمہیں سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟؟اس نے جواب دیا، سارے۔۔شوہرنے کہا ، تمہارا دل اتنا کشادہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔بیوی نے کہا، یہ اللہ کی تخلیق ہے، ماں کے دل میں سارے بچوں کے لئے کشادگی ہوتی ہے۔۔شوہر نے مسکرا کر کہا۔۔اب تم سمجھ سکتی ہو، مرد کے دل میں چار بیویوں کی کشادگی بیک وقت کیسے ہو سکتی ہے۔کیونکہ یہ بھی اللہ کی تخلیق ہے۔۔بیوی نے بیلن سے حملہ کیا اور شوہراسپتال پہنچ گیا۔۔اللہ شوہربے چارے پر رحم فرمائے۔اس کا اسلوب بھی اچھا تھا اورتکنیک بھی مزیدار۔بس کچن کی جگہ غلط چُن لی اس نے۔۔ سیانے کہتے ہیں۔۔کسی بھی میدان جنگ میں اترنے سے پہلے میدان کے محل وقوع اور جغرافیائی صورتحال کو لازمی ذہن میں رکھنا چاہیے۔۔۔ عورت کسی بھی ملک سے ہو اس کو پروا نہیں ہوتی اس کا خاوند کتنی ’’توپ ‘‘ چیز ہے، خاوند بے چارے کی مثال، گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔۔ خواہ اسکا خاوند لیڈر ہو یا کسی مافیا کا سربراہ، اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔  2015 میں نوبل انعام سے نوازے جانے والے ترک کیمیا دان عزیز سنجر کہتے ہیں نوبل انعام جیتنے کے بعد ایک دن میری بیگم نے مجھے آواز دی۔۔ عزیز! گھر میں جمع کچرا باہر گلی کے کوڑا دان میں ڈال آئیں۔۔میں کسی کام میں مصروف تھا، بیگم کوجواب دیا۔۔ نوبل انعام یافتہ ہوں۔۔اس نے پھر آواز دی۔ نوبل انعام یافتہ کیمیا دان عزیز صاحب! گھر میں جمع کچرا گلی کے کوڑا دان میں پھینک آئیں۔
پچاس پچپن برس کی عمر میں انسان فطری طور پر مراقبے کی طرف مائل ہوتا ہے جس کے ذریعے خود آگہی میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی عمر کے ایک صاحب کافی روحانی ہوگئے۔۔صبح سویرے مراقبہ میں گہری سوچ آگئی۔۔بڑبڑانے لگے۔۔میں کون ہوں؟کہاں سے آیا ہوں؟کیوں آیا ہوں؟کہاں جانا ہے؟۔۔وہ ان سوالات پر غوروفکر کرتے ہوئے اتنا کھوگئے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔تب ہی کچن میں کام کرتی ان کی اہلیہ چلائی۔۔ایک نمبر کے کاہل، ہڈحرام ہو تم۔۔ پتا نہیں جہنم کے کس دروازے سے بھاگ کر آئے ہو۔ ۔میری زندگی عذاب بنانے۔۔اٹھو، ناشتہ کرو، کام پہ جاؤ۔۔۔ فلاسفر شوہر کو اپنے چاروں سوالوں کے جواب بڑی آسانی سے مل گئے جس میں ساری مدد اہلیہ نے کی۔۔ روحانی سفر بھی مکمل ہوگیا اور علم میں بھی اضافہ ہوا۔۔اب ذرا شوہروں کے چند مشہور جھوٹ بھی سن لیجئے۔۔بیگم ، میری زندگی میں تم سے پہلے کوئی لڑکی نہیں آئی۔۔بیگم، میں فون پر اپنے پرانے دوست سے بات کررہا تھا جسے میں پیار سے ڈارلنگ کہتا ہوں۔۔ بیگم، میں لیٹ اس لیے آیا کہ کسی دوست کے بچے کی سالگرہ تھی۔۔۔ بیگم، میں تمھارے بغیر زندہ رہ نہیں سکتا۔ ۔۔ بیگم، اگر تم نہ ملی ہوتی تو میں کبھی شادی نہ کرتا۔۔۔ بیگم، یہ رہی میری پوری تنخواہ، اسے تم رکھ لو۔۔۔ بیگم، آج تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔۔۔ بیگم، میرے کپڑوں پر یہ لمبے بال دراصل اس گھوڑے کی دم کے ہیں جس پر میں گھڑسواری کرتا ہوں۔ہم پاکستانی بھی عجیب ہی قوم ہیں،بغیر پڑھے پاس ہونا چاہتے ہیں۔  بغیر کام کیئے تنخواہ لینا چاہتے ہیں، بلکہ چاہتے ہیں کام پر نہ جائیں اور نوکری چلتی رہے، ورزش نہ کر کے بھی فٹ فاٹ رہنا چاہتے ہیں۔۔ خود جیسے ہوں بیوی حسینہ عالم مانگتے ہیں۔ان سب سے بڑھ کر، نماز نہیں پڑھیں گے اور خواہش کریں گے کہ موت سجدے میں آئے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔حوصلہ سیکھنا ہے تو پریشر ککر سے سیکھو، آگ پر بیٹھا سیٹیاں بجا رہا ہوتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں