سہمی ہوئی مخلوق کا المیہ

سہمی ہوئی مخلوق کا المیہ

 عمران خان جلسوں میں پھر سے خواب بیچتے ہوئے تعبیروں کی ضمانت دے رہے ہیں۔انہیں گفتگو کا فن خوب آتا ہے،ان کا پْرجوش لہجہ اس یقین کے ساتھ خواب نقش کرتا ہے کہ دیکھنے والوںکو تعبیروں کی سرگوشیاں تک سنائی دینے لگتی ہیں۔ان خوابوںمیںوہ جہاں صاف دکھائی دیتا ہے جہاں سب برابر ہیں۔ محمود و ایاز، جیسے بوقت نماز ایک ہی صف میںکھڑے تھے، بعد ازنماز بھی بندہ اور بندہ نواز نہیں ہوتے۔یہاںغلام اور آقا کا کوئی تصور نہیں۔وہ جس انقلابی دنیا میں ہمیں لے کر جانا چاہتے ہیںاس کی پْرنور صبحوںمیں روشن مستقبل کی نوید بھی شامل ہے۔بھوک ،ننگ اور افلاس جیسے غم اْس دنیا سے بہت پیچھے کہیں ماضی کی گرد میں رہ جائیں گے۔اب راج کرے گی خلق خدا کا نعرہ ہہی یہاں نظام ِ زیست ہوگا۔ہم پرصدیوں سے مسلط ظالم ،جابر اور فاسق حکمران جو خوف بن کر ہم جیسوں پر برستے ہیں،جن کی پاٹ دار آوازوں سے ہم کانپ کانپ جاتے ہیں۔جو ہزارہا سال سے ہماری ہڈیاں چبا رہے ہیں،اْس نئے جہان میںیہ سب کے سب پسِ دیوارِ زنداں اپنے اپنے جْرم کی سزا بھگت رہے ہوں گے۔
ہم جنم جنم کے کْبڑے بھی جب ان کی باتیں سنتے ہیںتو لمحے بھر کوصدیوںپرمحیط غلامی کی ساری اذیت اور ذلت بھول جاتے ہیں۔لمحے بھر کی یہ خوشی کسی ہلکی سی چنگاری کی طرح اندھیروں میںچمکتی اور پھربجھ جاتی ہے۔اگلی ہی ساعت ساری کی ساری محرومیاں پھر سے ا?ن گھیرتی ہیں۔ہم ٹیڑھی گردنوں والے اپنی کمر کے خم کے ساتھ پھر سے انہی غلام گردشوں میںجنم جنم کی اشرافیہ کی ٹھوکر کی زد پہ ہوتے ہیں۔خان صاحب ہم کْبڑوںکو خواب دکھارہے ہیںاور ہم یہ خواب صدیوںکی محرومیوںسے چھٹکارے کی حسرتیںآنکھوں میں بھر کے دیکھ رہے ہیں۔ہم کْبڑے غلام اپنی انا،خودداری،عظمتِ رفتہ اورخودی سمیت سب کچھ بھلا بیٹھے ،بس ایک یہ خواب ہی تو ہیں جنہیں دیکھنا نہیں بھولے۔۔۔۔ عمران خان ہم ایسے غلام لوگوں کو خواب دکھا رہے ہیںجن کے پاس خوابوں اور حسرتوںکے سوا کچھی بھی نہیں۔ہزارہا سال کی غلامی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہماری گردنوں میں خم آگیا ہے۔ریڑھ کی ہڈی بھی مستقل ٹیڑھی ہوچکی۔ہماری دنیا کے لوگوں کے ہاںاب جو بچہ جنم لیتا ہے ،وہ یہ خم وراثت میںلے کر پیدا ہوتا ہے۔اس دنیا کے باسیوں نے صدیوں سے اپنی گردنیں جھکا کے بات کی ہے۔اس خم نے ان کے قد کو بھی بونا کردیا ہے۔یہ جانتے ہیں کہ ان کا بونا پن اسی خم کے باعث ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے، اب ان کے وجود کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔اگرچہ غلامی ہماری بنیاد میں شامل ہوچکی لیکن پھر بھی کبھی کبھی کسی امید کی موہوم سی جھلک ہمیں اس کْبڑے پن سے نجات پانے کی تحریک ضرور دیتی ہے۔ہزارہا سال کی اس غلامی کے ہر دور میں اسی امید کے سہارے چندلوگوں نے اپنی گردنیں سیدھی کرنے اور یہ خم مٹانے کی کوشش بھی کی ،لیکن ناکام رہے۔ہم نے جب بھی گردن کو سیدھا کرنے کے لیے زور لگایا، یہ خم نہیں گیا۔ گردن ٹوٹ گئی یا پھر توڑ دی گئی۔۔۔
ہم ہر بار مایوس ہوتے ہیںاور ہر بار پھر سے کسی نئے خواب کی تعبیر کا تصور کرکے جی اٹھنے کاحوصلہ باندھتے ہیں۔یہاںگردنیں اور امیدیں ٹوٹتی ہی رہتی ہیں، لیکن یہ دھرتی بار بار ایسے بیٹوںکو جنم دیتی ہے جو خواب دیکھنے کی روایت کو مرنے نہیںدیتے۔یہ بیٹے اس مِتھ کو ختم کردینا چاہتے ہیںکہ ٹیڑھی گردن کا خم نسل در نسل منتقل ہونے لگے تو اس کا سیدھا ہونا ناممکن ہوجاتا ہے۔ خواب دیکھنے والے دوسروں کوبھی احساس دلاتے ہیںکہ جب آزادی کی سحر طلوع ہوگی تواس روز ہمارے ہاں جو بچہ جنم لے گا وہ ٹیڑھی گردن اور کمر میں خم لے کر دنیا میں نہیں آئے گا۔وہ بچہ نئے جہان کی بنیاد رکھے گا،جہاں ہمارے شام و سحر غلامی کی گرداور ذلت میں لتھڑے ہوئے نہیں ہوں گے۔۔۔غلامی کے اس طویل دور نے اگرچہ کْبڑے غلاموں کی زبانیںتالو کے ساتھ چپکا دی ہیںلیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوںنے اشاروں میں بات کرنے کا ہنر ایجاد کرلیا ہے۔یہ اشارے کنائے میں اک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے اور کبھی غلام گردشوں میںآتے جاتے سرگوشیاں بھی کرتے ہیں۔ خواب دیکھنے والوں کی تعدادآہستہ آہستہ بڑھ تورہی ہے لیکن گردن توڑ دیئے جانے کا خوف ان کی سوچ کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا۔
خوف کے یہ دائریہی وہ المیہ ہیں جو سہمی ہوئی مخلوق کو صدیوں سے اپنے حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ دائرے کھینچنے والوں نے مقید مخلوق کے دل میں وہم ڈال دیا ہے کہ اگر اس حصارسے باہر نکلے تو جل کر راکھ ہوجائیں گے۔یہ وہم نسل در نسل گردنوںکا ٹیڑھ اور کمر کا خم بن کر ہمارے ساتھ جنم لے رہا ہے۔ہم اس خوف سے بغاوت نہیں کرتے کہ کہیں جلا کر راکھ ہی نہ کردیئے جائیں۔ہم غلام ابنِ غلام ایک نہیں کئی دائروں میں قید ہیں۔سیاست ،اقتدار، طاقت کے دائرے اور کبھی جھوٹ، فریب ،مکاری کے دائرے۔ دائروں میں قید رکھنے والوںنے یہ خیال ہمارے لاشعور کا حصہ بنادیا ہے کہ ٹیڑھی گردنوں والے صرف حکم بجا لانے کے لیے جنم لیتے ہیں۔ان کا کام سرجھکا کر آداب بجالینے کے سوا کچھ نہیں۔ہم دائروںمیں قید لوگ روز پیٹے جاتے ہیں۔ہمیں روندا بھی جاتا ہے اور مسل کر مٹایا بھی جاتا ہے۔ہماری بینائی بھی چھینی جاتی ہے اور زبان چھید کر مکالمے کی طاقت بھی ہتھیائی جاتی ہے۔ہماری سماعتیں پگھلے ہوئے سیسے کی سرسراہٹ کے سوا کچھ نہیںسنتیں۔ لیکن پھر بھی ہم خواب دیکھنا نہیں چھوڑتے۔۔۔۔
آزادی امریکی غلامی سے ہو یا نسل در نسل حکمرانی کرنے والے شاہی خاندانوں سے۔آمریت کے جبر سے یا جمہوریت کے فریب سے۔ہم آزادی چاہتے ہیںلیکن حوصلہ نہیںکرپاتے کہ کہیںپھر سے خواب کا پیچھا کرتے کرتے سرابوں کی نذر نہ ہوجائیں۔پھر سے ہار جانے کا ڈر ہمیںبزدل بنائے ہوئے ہے۔ہم جانتے ہیں کہ یہ زنجیریں تبھی ٹوٹیں گی جب خوف کے دائروں سے باہر نکلنے کی جرات حوصلہ بن کرلہو گرمائے گی۔جب ٹیڑھی گردنوں والے شریفوں،زرداریوں ،چودھریوں اور ان جیسوںکا بوجھ ڈھونے سے انکار کردیں گے۔جب وڈیروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے اقتدار کامستقل اختیار چھین کر اسے خلق خدا کے حوالے کردیا جائے گا۔۔۔۔لیکن یہ تبھی ہوگا جب خوف کے ان دائروں سے پاوں باہر نکالنے کا حوصلہ کیا جائے گا۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس روز ہمت کرلی اس روز خود بخود ہماری کمرکا خم اور گردن کا ٹیڑھا پن ختم ہوجائے گا۔
عمران خان بھی یہ سب جانتے ہیں۔ انہیںسب خبر ہے کہ ہم ٹیڑھی گردن والے کبڑے لوگ کس خواب کی خواہش میںدل و جان ہتھیلی پہ لیے مقتل کی پْرخار راہوںمیں بھی مست و رقصاں بے خود نکل پڑتے ہیں۔پچھلی بار جب انہوں نے ہمیں یہ خواب دکھایا تھا تو تعبیر کی صورت میںترین ،علیم ،واوڈا،عامر لیاقت اور فرح گجرجیسے لوگ ملے تھے۔ہمیں خواب دکھاکرسانپ سی تعبیروں سے ڈسوایا گیا تھا۔عمران خان ہم کْبڑوںکو پھرسے خواب دکھا رہے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ابھی ہماری رگوں میں پچھلی بار کے خوابوں کی تعبیروںکا زہر باقی ہے ،وہ ہمیں پھر سے نئے جہان کا خواب دکھا رہے ہیں۔۔
ہم ٹیڑھی گردن اور خمیدہ کمر والے لوگ ایک بار پھرعمران خان کی بات کیسے مان لیں۔۔۔جب یہ خبر ہے کہ اس خواب کی بھی تعبیر پہلے سے مختلف نہیںہوگی۔پھر سے کوئی گوگی،واوڈا یا قریشی اس خواب کی زہریلی تعبیر بن کر اپنے مفادات کا پھن پھیلائے ہمارے ماتھے پہ ڈسے گا۔۔۔۔ہم ٹیڑھی گردنوں والے ڈرتے ہیں کہ اس بار بھی کہیں گردن سیدھی کرنے کی خواہش میں ہماری گردن ہی نہ ٹوٹ جائے۔۔۔یاپھر توڑ دی جائے گی۔۔۔۔

مصنف کے بارے میں