”سجدہ گراں“

Nawaz Khan Merani, Pakistan, Lahore, e-paper, Naibaat Urdu News paper

حالیہ کرکٹ میچ کے سیمی فائنل میں میرٹ کے خلاف ورزی کرتے ہوئے محض ایک کھلاڑی کی کارکردگی کی وجہ سے جو کروڑوں عوام اور اربوں مسلمانوں کی خوشیاں، مایوسیوں میں بدل گئیں، گو اس کی ذمہ داری بعض دل جلے شیخ رشید احمد کے اس بیان کی بے برکتی پہ منتج کرتے ہیں، کہ اگر پاکستان فائنل میں پہنچ گیا، تو میں دوبئی میچ دیکھنے جاؤں گا، خیراس ذہنی کوفت سے بچنے کے لیے قارئین میں نے سوچا ہے، کہ گاڑی میں دوبیٹھے ہوئے مسافروں کی کہانی میں آپ کو سناتاہوں، آپ بتائیں کہ یہ کون ہیں، آپ تو جانتے ہیں، کہ سکھوں اور ہم لوگوں کے درمیان یہ مماثلت تو پائی جاتی ہے، انہیں بھی اپنے آپ پہ یقین نہیں ہوتا، ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں ہوتا، وہ بھی داڑھی رکھتے ہیں، ہم بھی شرعی اور غیر شرعی داڑھی رکھتے ہیں، بلکہ ہم میں سے بھی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان کو دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے، ان کے نام کے ساتھ سردار لگتا ہے، اور ہمارے ہاں بھی بغیر کسی جاگیر کے ہم بھی سردار بنے پھرتے ہیں۔
وہ اپنے نام کے ساتھ سردار لکھتے ہیں، اور ہم بھی سکھوں کی طرح بغیر جاگیر کے سردار لکھ دیتے ہیں، مثلاً وہ کچھ بھی لکھ کر آگے سنگھ لکھ دیتے ہیں، جیسے انگریز سنگھ، بوٹا سنگھ، بہادر سنگھ، فولاد سنگھ، منگل سنگھ، کیکر سنگھ، وغیرہ وغیرہ ہم بھی اپنے نام کے ساتھ دریا خان، سمندر خان، کالا خان، جمعہ خان لگا لیتے ہیں ہم بھی نام کے مسلمان ہیں، اور وہ بھی نام کے سکھ ہیں، مگر اپنے گوروکی تعلیمات پرشدید گرمیوں میں بھی کاربند ہیں۔ مگر ہم تو نام کے مسلمان ہیں، بلکہ اب تو ہم روشن خیال مسلمان ہیں، وہ بھی ہمیشہ ہندوؤں سے بلیک میل ہوتے آئے ہیں، ہم بھی ہندوؤں کے مکروفریب میں بیوقوف بن جاتے ہیں، وہ بیساکھی میں اودھم مچاتے ہیں،ہم جشن بہاراں، بیساکھی، اور اب تو ہولی کے تہواروں میں شریک ہوکر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شرکت کرتے ہیں، اور عملاً ہم بھی سکھ بن جاتے ہیں، وہ بھی کچھ کرگزرنے کے بعد سوچتے ہیں، بلکہ ہم تو کچھ گزرنے کے بعد بھی نہیں سوچتے، بلکہ دوسرے آکر ہمیں بتاتے ہیں سکھ بہت ضدی ہوتے ہیں، ہم بھی کسی چیز پہ اڑجائیں، تو بس پھر ہمیں بھی امریکہ کے سوا اور کوئی نہیں سمجھا سکتا۔
انہوں نے خالصتان کی آزادی کے لیے ہزاروں جانوں کی قربانی دی، اور ابھی بھی دے رہے ہیں، ہم نے بھی کشمیر کے لیے اپنی گردنیں کٹوائی ہیں، اور ابھی بھی کٹوارہے ہیں، غلط حکمت عملی کی وجہ سے ان کی قربانیاں رنگ نہ لاسکیں، اور ہم نے بھی کشمیر کی آزادی سامنے آنے کے باوجود کسی مصلحت پسندی کے تحت پسپائی اختیار کرکے یہ ثابت کردیا کہ ہم دونوں یاروں کے یار ہوتے ہیں، سکھ ہندوؤں کے آلہ کار بن جاتے ہیں، ہم امریکہ کے حواری بن جاتے ہیں، سترسال آزادی حاصل کیے ہوئے ہوگئے، سکھ ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں، بلکہ ہم وہیں کے وہیں بھی نہیں ہم تو اپنا آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے ہیں، سکھ اپنے ایک آئی جی کی وجہ سے خالصتان اندرا گاندھی سے آزاد نہ کراسکے، ہم بھی اپنے ایک مسلمان جنرل کی وجہ سے ہتھیار ڈال کر ان سے ایک قدم ان سے بھی آگے بڑھ گئے، اور جوتے کھانے کے باوجود بھی ٹائیگر بھی کہلواتے ہیں، بلکہ مرتے دم تک اپنی ٹوپی پہ پرندے کا پر لگائے رکھتے ہیں۔
سکھ دوسروں کی لڑائی پہ بے دریغ کود پڑتے ہیں، ہم بھی دوسروں کی لڑائی میں ایندھن تک فراہم کرتے رہے ہیں، سکھ مسلمانوں اور خصوصاً پٹھانوں کے لطیفے محفلوں میں سناتے ہیں، ہم ہر جگہ سکھوں کے لطیفے سنوا کر اپنی محفلوں کو گرماتے ہیں ایک سکھ نواب جس کو اپنی صلاحیتوں پہ ضرورت سے زیادہ بھروسہ تھا حتیٰ کہ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا تھا، بقول اس کے اس کی رعایا بڑی خوشحال تھی، اور غربت اور افلاس ان سے کوسوں میل دورتھا، حتیٰ کہ رعایا ان کو بھگوان کا درجہ دیتی تھی، یہ ساری باتیں سکھ نواب اپنے مسلمان دوست کو بتارہا تھا، نعوذ باللہ لوگ اسے رب، یعنی بھگوان، ایشور سمجھتے ہیں، اگر یقین نہ آئے، تو میرے ساتھ چلو، میں تمہیں ثبوت دیتا ہوں، یہ کہہ کر وہ اپنے دوست کو لے کر اپنے گھر گیا، اور دروازہ کھٹکھٹایا سکھ کی بیوی دوڑتے ہوئے آئی، اور دروازہ کھول کر بے اختیار بولی، ہائے ربا توں آگیا ایں، یہ سن کر سکھ نے اپنا سینہ فخر سے پھلا دیا، اور گردن اکڑ کر دوست سے بولا، اب تو یقین آگیا، اب تو سن لیا، اپنے کانوں سے، اور دیکھ لیا اپنی آنکھوں سے، یہ ماجرہ دیکھ کر مسلمان نے بھی فخر سے سینہ پھلایا، اور کہا کہ لو، یہ کیا بات ہوئی، ہم تو بہت آگے کی بات پہلے سوچ لیتے ہیں سکھ نے کہا، کہ کوئی مثال دو، مسلمان نے جواب دیا، کہ میری ہی مثال لے لو، میرا دل کرتا ہے، کہ میں سجدے کی حالت میں اپنی جان، اللہ تعالیٰ وحدہ‘لاشریک کو دوں، اور اپنی اس خواہش کو لے کر میں اپنے امام مسجد کے پاس لے کر گیا، اور نماز جمعہ کے بعد ان کے پاس جاکر کہا، کہ امام صاحب دعا کریں میری جان سجدے کی حالت میں نکلے، یہ سن کر امام صاحب نے پوچھا، میں نے آپ کو کبھی مسجد میں آتے نہیں دیکھا، اور نماز پڑھتے بھی تو اپنی ساری زندگی میں نہیں دیکھا، سجدے میں اگر مرنا ہے، تو پہلے نماز تو پڑھ …… بقول حضرت علامہ اقبالؒ
بدل کر بھیس پھرآتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لاتو ومنات
یہ ایک سجدہ ہے جیسے تو گراں سمجھتا ہے
دومسافروں کی کہانی ان شاء اللہ اگلی دفعہ
(جاری ہے)