اجرتی قاتل،اجرتی لیڈر سے اجرتی مہمان تک

اجرتی قاتل،اجرتی لیڈر سے اجرتی مہمان تک

مجھے یاد ہے جب گریٹ ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کے دورے سے پہلے وطن عزیز میں اپنی پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن کو بھی آن بورڈ لیا۔ گویا مشاورت اور قومی اعتماد حاصل کرنے کے بعد گئے کہ بھارت اور دنیا کو یہ پیغام جائے کہ بھٹو صاحب صرف ایک مقبول ترین رہنما اور منتخب سربراہ ہی نہیں انہیں پوری قوم اور اداروں کا اعتماد بھی حاصل ہے۔ جب بھٹو صاحب بھارت شملہ پہنچے، اس دورے کے متعلق بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”بھارت کی تاریخ میں پہلی بار بھارت کا واسطہ ایک سیاستدان سے پڑ رہا ہے“۔ عصر حاضر میں وطن عزیز کے جیسے بھی ہیں سیاست دانوں کا عمران خان کی صورت میں ایک سازشی، حاسد، منتقم المزاج اور کرپٹ و کریمنل پریکٹسز میں ملوث شخص سے پہلی بار واسطہ پڑا ہے جس کا ملک کے کسی سیاست دان، ادارے اور عوام کے پاس بظاہر کوئی حل نہیں ہے۔ اب بھی چار صوبوں میں حکومت ہے پھر بھی عجیب بیانیہ لے کر نکلے ہیں کہ حقیقی آزادی، چار صوبوں میں حکومت تو حقیقی آزادی کس سے؟ جنرل ضیا الحق سے لے کر جنرل باجوہ صاحب تک تو لاڈلے بنے رہے جبکہ اس دوران دوسری سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی سرفہرست اور تاریخ ساز جماعت ہے، نے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی حوالے سے غیر جانبدار رہے اس کے بعد ن لیگ نے بھی اسی جدوجہد کو اپنایا جبکہ اے این پی اور دیگر جماعتوں کا اپنا کردار ہے مگر عمران خان جو کہ اکیلا بندہ اپنی ذات میں جماعت تھا کی جماعت کی افزائش کی زور زبردستی تمام طریقے استعمال کر کے 3 سال 7 مہینے 4 دن وزیراعظم بنائے رکھا اور ہمیشہ مدد کی۔ چاروں صوبوں میں اب بھی حکومت ہے، اپنی صوبائی حکومتوں کے زور پر جلوس لے کر نکلتے ہیں، لانگ مارچ عصر حاضر میں بلاول بھٹو نے کیا کراچی سے اسلام آباد اور ہر شہر میں مارچ بڑھتا چلا گیا، کراچی جا کر عظیم الشان جلسہ کیا جس کے اختتام پر عدم اعتماد لائے جو کامیاب ہوئی۔ یہ کیسا دکانداروں والا مارچ ہے جو رات کو بند ہو جاتا ہے اور صبح شروع ہو جاتا ہے۔ اب خود ساختہ خطرہ بنا کر بھارتی فلم سرکار سے متاثر ہو کر گھر میں بند ہیں ایسے برگر مارچ اور ایسی ہومیوپیتھک تحریک تو پاکستان میں کبھی کسی نے دیکھی نہ سنی جس کا مقصد ہی نرالا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار نہ رہے اور عمران خان کا ساتھ دے ایسا عجیب الخلقت سیاسی رہنما کہ ابھی حقیقی آزادی، سائفر، کیا ہم کوئی غلام ہیں، روس سے پینگیں بڑھانے کو کارنامہ، امریکی غلامی سے آزادی، اسٹیبلشمنٹ سے آزادی۔ پتہ نہیں کیا کیا اول فول بے بنیاد دعوے، باتیں اور
بیانیے تھے اور اب یکدم واشنگٹن سے دوستی کا پیغام۔ اپنے مستقبل کے لیے فوج سے اپنے لیے تعمیری کردار کے لیے مدد کی طلب فرمائی ہے، روس کے دورے پر ندامت کا اظہار، سائفر بیانیہ فارغ کیا۔ اب میرے خیال سے ایک قانون دان، جو ٹوئٹر پر بڑے متحرک ہیں، کو عمران کے لیے ٹوئٹ کرنا ہو گا کہ ”بھٹو بنو گے“۔ ان کے فالوورز جن کو کچھ یاد نہیں کچھ ہوش ہے کہ وہ کس کی باتوں میں آ گئے ہیں جو خود اپنی ہی باتوں پر قائم نہیں اور نہ ہی قائل ہے۔ دراصل ان بے چاروں کا بھی کیا قصور ہے اس نوٹنکی نے تو ادارے اپنی اداو¿ں میں مبتلا کر لیے تھے۔ میں نے جب وکالت شروع کی تو ضیا الحق کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر دمک رہا تھا کچھ اس انداز سے تمازت دے رہا تھا جیسے سو نیزے پر ہو۔ کلاشنکوف عام تھی، ہیروئن کاروبار اور کرپشن بطور پالیسی رائج تھی اس زمانے میں اُجرتی قاتل عام تھے اس سے پہلے جن پہلوانوں، بدمعاشوں کی دشمنی ہوتی وہ خود میدان کارزار میں اترتے مگر ضیاا الحق کے دور میں دشمنیاں اور قتل اس قدر بڑھ گئے کہ کرائے کے قاتل شوٹرز ایک پیشہ ور گروہ کے طور پر سامنے آئے۔ یہ لعنت آج بھی ہے مگر کرائے یا اجرتی رہنما بالکل نئی بات ہے۔ اجرتی کالم نگار بھی دیکھے گئے مگر اُجرتی رہنما پہلی بار دیکھے۔ جو الیکٹ ایبلز بھی کہلاتے ہیں اور بعض اوقات لوٹے کی اصطلاح بھی استعمال ہوا کرتی مگر اب کی بار یہ سارے حربے ایک بظاہر غیر سیاسی مگر انتہائی سیاسی اور چکمہ دینے والے سیاست کار کے لیے استعمال ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ ان کی جماعت بناؤ، ان کی مدد کرو اور جب ان کی اصلیت کھلی توتباہی بربادی اور پچھتاوؤں کے انبار تھے۔ اُجرتی لیڈر کے علاوہ آج کل نیا ٹرینڈ ہے اُجرتی مہمان۔ امیر لوگ شہرت کے رسیا جن کے پاس پیسہ تو ہے مگر چاہتے ہیں کہ دنیا کو پتہ چلے ہمارے تعلقات ملک کی سلیبرٹیز سے ہیں ان کو اپنے بیاہ، شادی اور ایسے تہواروں پر لاکھوں کروڑوں روپے دے کر بلاتے ہیں۔ پچھلے دنوں سالگرہ کے نام پر ایک ایسی تقریب ہوئی جس میں سابق وزیراعظم بھی تھے، ٹی وی اینکرز، اداکارائیں اداکار اور وہ سب کے سب یا 95 فیصد پیسے لے کر مہمان بنے تھے ظاہر ہے جہاں ٹی وی ڈراموں کی اداکارائیں اداکار، ٹی وی شوز کے ستارے ہوں پھر میڈیا تو آئے گا۔ میں حیران ہوں کہ یہ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں، کس ذہنیت کے لوگ ہیں، کیا آئینے میں اپنے آپ کو عزت دار سمجھتے ہوں گے؟ دنیا تو کیا اپنا ہی چہرہ دیکھ پاتے ہوں گے؟ شاید کل کلاں یہ لوگ مرنے پر بھی سلیبرٹیز اور نامور لوگوں کو اجرت دے کر بلائیں کہ آئیں دنیا کو پتہ تو چلے ہمارے کتنے تعلقات ہیں۔ فیک نیوز، فیک ایف آئی آر یاد آیا مبشر لقمان کا دعویٰ ہے کہ عمران کے جلسے میں شہید ہونے والا عمران کے گارڈ کی گولی سے جاں بحق ہوا۔ اب اس کے متعلق ایف آئی آر کے حصے کا کیا بنے گا؟ عجیب زمانے آ گئے، دوسروں کی موت پر، بیماری پر، زخمی ہونے پر شادیانے بجانے والے کلچر نے پنجے گاڑ لیے، میں نے دشمنی کی آخیر یہ دیکھی کی لوگ قتل کر کے لاشوں پر بھنگڑے ڈالتے دکھائی دیئے۔ اب سیاست میں یہ طرز اظہار شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہر پہر ڈھلتی پہر ہے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اللہ کی طرف مراجعت کا سفر جاری ہو جاتا ہے گویا ہر پہر ڈھلتی پہر اور باقی وہی ہے جو آگے بھیج دیا یا یاد رکھنے کے لیے پیچھے چھوڑ دیا۔ کیا اسد عمر کو معیشت پر شاہ محمود قریشی کو خارجہ پالیسی پر۔ عمران نیازی کو تبدیلی پر بلکہ پوری صف اول کی قیادت کو کسی موضوع پر بات کرتے ہوئے کچھ خیال آتا ہے۔ بقول خواجہ آصف ”کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے“۔ میں نے اپنے کالموں میں لکھا تھا کہ ایک وقت آئے گا یہ لوگ مکر جائیں گے کہ کبھی حکومت میں بھی تھے۔ اس وقت پورے کرہ ارض پر ایسا ملک نہیں جہاں قاتل، لیڈر، مہمان سب کے سب اُجرتی ہوں۔ ایک اُجرتی اور فیک معاشرت کی بنیادیں جڑ پکڑ چکیں جس کے بعد اللہ کے دین اور قرآن سے رہنمائی اور آئین و قانون کی حاکمیت کے علاوہ چارہ نہیں۔

مصنف کے بارے میں