میچ مذاق

میچ مذاق

بہت دعائیں کی تھیں پاکستان ورلڈ کپ جیت جائے۔ میں یہ چاہتا تھا بدخبریوں کی خزاں میں خوشخبری کی کوئی کلی کوئی پھول ایسا کِھل جائے، کوئی دیا ایسا روشن ہوجائے بُجھے ہوئے دِلوں اور چہروں کو جوروشن کردے۔ مختلف بیماریوں کے شکار آئی سی یومیں پڑے ہوئے وطن عزیز کا ”وینٹی لیٹر‘ اُتر جائے، .... پر یہ نہ تھی ہماری قسمت.... یوں محسوس ہوتا ہے قدرت شاید مستقل طورپر ہم سے روٹھ چکی ہے۔ کوئی اچھی خبر ہماری جھولی میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں.... آسٹریلیا میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے سابقہ میچز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، جس کے نتیجے میں وہ فائنل میں پہنچ گئی۔ اِسی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر ہرکوئی ایسی یقین کامل میں مبتلا تھا ورلڈ کپ آسانی سے جیت لے گی۔ سابقہ میچز میں اپنی ٹیم کی اچھی کارکردگی دیکھ کر مجھے ایک نشئی یاد آتا تھا جو ایک بار ایک مسجد میں وضو کررہا تھا، مولوی صاحب نے اُس سے پوچھا ”اوئے تم یہاں کیا کررہے ہو؟“.... وہ بولا ”مولوی صاحب جے میں ایتھے پہنچ گیا واں ناں تے میں جنت وچ وی پہنچ جانا جے تُسی روک کے ویکھانا “.... سو ہم اِس یقین میں مبتلا تھے اگر ہماری ٹیم فائنل تک پہنچ گئی ہے تو ورلڈ کپ تک بھی پہنچ ہی جائے گی۔ کوئی اُسے نہیں روک سکتا۔ پر کیا کریں اپنی قسمت ہی خراب تھی اس لیے ہم ورلڈ کپ نہیں جیت سکے۔ برطانیہ دوسری بار ورلڈ کپ جیت کے عالمی چیمپئن بن گیا۔”عالمی چیمپن“ تو ویسے ہم بھی ہیں، مگر ہم جھوٹ اور منافقت کے عالمی چیمپئن ہیں، یہ ”اعزاز“ ہم سے آج تک کوئی نہیں چھین سکا، ہم اپنی ایٹمی صلاحیت کی اتنی حفاظت نہیں کرتے جتنی حفاظت اپنے اِس ”اعزاز“ کی کرتے ہیں، .... سوچ کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں، ایک صاحب فرمارہے تھے ”اچھا ہی ہوا ہم نے ورلڈ کپ نہیں جیتا ورنہ ممکن تھا یہ بھی کِسی بازار میں بِکنے کے لیے چلے جاتا“.... ہمارے خان صاحب ہروقت ”چورڈاکو، چورڈاکو“ کا جو ”ورد“ کرتے رہتے ہیں کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان میں صِرف چورڈاکو ہی بستے ہیں، سوائے اِک ہمارے پیارے خان صاحب کے....توشہ خانے کی ”واردات“ ڈالنے کے بعد بھی وہ خود کو ”فرشتہ “ ہی سمجھتے ہیں، اور اُن کے جو پجاری، درباری وحواری ہیں وہ اُنہیں ”فرشتے“ سے بھی اُوپر ہی کچھ سمجھتے ہیں۔ اُن کے کسی رہنما سے کوئی غلطی ہوجائے وہ خان صاحب سے یہ نہیں کہتا کہ ”مجھے معاف کردیں“ .... وہ کہتا ہے ”میرا گناہ بخش دیں“ .... ویسے ہم بھی خان صاحب کو ”فرشتہ “ ہی سمجھتے ہیں کیونکہ موت کا بھی فرشتہ ہی ہوتا ہے .... خان صاحب نے ورلڈ کپ ہارنے پر اپنی کرکٹ ٹیم کے لیے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے اُن کے لیے اپنا یہ روایتی جملہ دہرایا کہ انسان کے بعد میں صرف کوشش ہوتی ہے، ہارجیت اللہ کے اختیار میں ہے“.... یہ شاید واحد سچ ہے جو اپنی زندگی میں وہ بولتے آئے ہیں اور ابھی تک اِس پر کوئی یوٹرن بھی اُنہوں نے نہیں لیا، .... شکر ہے اِس موقع پراُنہوں نے یہ نہیں کہہ دیا ” پاکستان کی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ اِس لیے ہاری ملک پر اِس وقت چورڈاکو حکمران مسلط ہیں“۔ یا یہ نہیں کہہ دیا ”اِن چور ڈاکو حکمرانوں نے اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ ہروانے کے پیسے پکڑے ہوئے تھے“.... اُنہیں یہ کہنا یقیناً یاد نہیں رہا ہوگا ورنہ یہ ممکن ہی نہیں دنیا کے کِسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے اُسے اپنی غلیظ سیاست سے وہ دُور رکھیں۔ ہمارے کپتان بابر اعظم کو خصوصی طورپر خان صاحب کا ممنون ہونا چاہیے کہ ورلڈ کپ ہارنے کے بعد اُنہوں نے اپنی لائیو تقریر میں اُن کا نام درست لیا۔ اُنہیں دوبارہ ”بابراعوان“ نہیں کہہ دیا جو اپنی ایک ٹوئیٹ میں وہ کہہ چکے ہیں، ہوسکتا ہے بابراعوان کو بھی کئی مواقعوں پر اُنہوں نے ”بابراعظم“ کہہ دیا ہو، وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، ہم اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ ہمارا ”فرض“ صرف یہ ہے وہ جوکچھ ”ارشاد“ فرمائیں ”حرف آخر“ سمجھ کراُس پر ایمان لے آئیں بصورت دیگر ”قوم یوتھ“ کی بدسلوکیوں کا سامنا کریں جو ظاہر ہے کوئی غیرت مند کرہی نہیں سکتا، .... موجودہ کرکٹ ٹیم اِس حوالے سے خوش قسمت ہے ایک بڑا میچ (ورلڈ کپ) ہارنے کے بعد بھی پاکستانی عوام کی طرف سے اُسے اُس غیظ وغضب کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو عوام کی روایت ہے، ورنہ ہمارا ماضی یہ ہے کِسی معجزے یا سخت محنت کی وجہ سے ٹیم کوئی میچ جیت جائے اُس پر اُسے اتنا سراہا نہیں جاتا جتنا پوری کوشش کے باوجود کوئی میچ ہارنے پر لعن طعن کیا جاتا ہے، اِس حدتک کہ کھلاڑی جب ایئر پورٹ پر اُترتے ہیں اُن کا ”استقبال “ کرنے کے لیے لوگوں کے ہاتھوں میں چِھتراور گندے انڈے ہوتے ہیں، یہ لوگوں کا اب ایک مثبت رویہ ہے جِس کا اظہار ہرشعبے میں کیا جانا چاہیے، ورلڈ کپ ہارنے پر وزیراعظم شہباز شریف کا کوئی بیان یا ٹوئیٹ میری نظروں سے نہیں گزری۔ ممکن ہے لندن میں اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکے ہوں۔ وہ وطن واپس آتے آتے اچانک رُک گئے، اِس پر بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں، .... میری ”قیاس آرائی“ یہ ہے اُنہیں اُن کے ”پائین “ نے یہ کہہ کے روک لیا ہوگا ”چلوایک دودِن مزید رُک جاﺅ، اکٹھے بیٹھ کے ورلڈ کپ دیکھیں گے، ساتھ مونگ پھلیاں چلغوزے کھائیں“.... اور وہ یہ سوچ کے رُک گئے ہوں گے کہ میں نے واپس جاکے کیا کرنا ہے، سارے اہم فیصلے تو میرے بغیر ہی ہونے ہیں !!

مصنف کے بارے میں