ڈاکٹر خواجہ، عزیزی، ڈاکٹر گل، سیاسی گفتگو منع ہے

ڈاکٹر خواجہ، عزیزی، ڈاکٹر گل، سیاسی گفتگو منع ہے

ہمارے لڑکپن بلکہ بچپن کے زمانے ہیں کہ حجام، حکیم، چائے کی دکانوں و دیگر ایسے ہمہ جہت ادارے میں داخل ہوتے ہی جس اشتہار پر نظر پڑتی وہ تھا ”سیاسی گفتگو منع ہے“۔ یہ کسی معاشرت میں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدم برداشت سرایت کر چکی ہے۔ ضیا کا زمانہ بھی آیا جس میں بازار حسن ”ہیرا منڈی“ میں ناچ گانے کے لیے ایک ضابطہ جاری کر کے اوقات طے کر دیئے گئے۔ سیاسی بات پر کوڑے، قلعے، قیدیں، جلاوطنیاں، عقوبت خانے، پھانسیاں، لوگوں کا مقدر بنیں لہٰذا سیاسی گفتگو اشارے کنائے پر وہ سزا دی گئی جو اسلامی نظام اگر ہو تو حد واجب ہونے پر دی جاتی ہے۔ سیاسی جدوجہد اور حقوق کی بازیابی کی کوششیں نئی تاریخ رقم کرتی گئیں مگر آج حالات بدل گئے یہ ٹوئٹر نے سوشل میڈیا نے ہمارے جیسے ممالک میں کاروبار بنا دیا۔ کیونکہ ہماری معاشرت کی بنیاد نفرت، کرپشن اور انتقام پر رکھی جا چکی ہے اس کے ارتقائی مراحل کی باقاعدہ ایک تاریخ ہے لہٰذا دوستوں، رشتہ داروں اور میل ملاقاتوں میں لوگ آج ماحول خوشگوار رکھنے کے لیے سیاسی گفتگو نہ کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ احمق سے بحث کرنا خود کش حملے کے مترادف ہے۔ اس تمہید پر وقت اس لیے ضائع کیا کہ ہمارے بھائی اور دوست ڈاکٹر اعجاز خاور تنزانیہ میں ہوتے ہیں، انگلینڈ، ابوظہبی اور اسلام آباد میں اپنے مختلف ڈینٹل ہسپتالوں میں سالانہ وزٹ رکھتے اور کام کرتے ہیں۔ لاہور میں ڈاکٹر گلریز محمود خاں صاحب کے Habitat میں مہمان ہوتے ہیں ڈاکٹر خان وسیع دستر خوان رکھتے ہیں اور صوم و صلوٰۃ کے پابند انسان ہیں جب ڈاکٹر خواجہ یہاں آئیں تو ایک دن گرینڈ ڈنر ہوتا ہے۔ جس میں وطن عزیز کے نامور فنکار دانشور جناب سہیل احمد (عزیزی) معروف صحافی جناب طاہر سرور میر، آئی بی کے اعلیٰ آفیسر جناب راحیل رحمت بٹ، انجینئر جناب اسد بٹ، معروف پراپرٹی آئی کون جناب زبیر میر، سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جناب خاور، ڈاکٹر صاحبان دیگر سرکاری افسران مدعو ہوا کرتے ہیں۔ یقین کریں اس بار وطن عزیز اور قوم میں نفرت، دشمنی اور اختلافات کا یہ عالم ہے کہ ہر بندہ پٹرول کا ڈرم بنا پڑا ہے سیاسی گفتگو کی دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے کہ رگیں، نسیں، آنکھیں، الفاظ تیور سب کچھ بدل جایا کرتا ہے۔ میں خصوصی طور پر اس بات پر اٹل تھا کہ آج سیاسی گفتگو نہیں چھڑنے دینی، مگر کسی نے چھیڑ دی پھر ساری دنیا کے معاشی نظام، آئین، بین الاقوامی تعلقات، وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں زیر بحث آ گئیں مجھے اس حوالہ سے کافی بوریت ہوئی کہ یہ سیاسی لوگ جو زندگی میں شاید ہم سے ہاتھ بھی نہ ملائیں ہمارا کتنا قیمتی وقت کھا جاتے ہیں۔ ایک محفل جس کا کئی ماہ انتظار رہتا ہے دو گھنٹے کی محفل کھانا گپ شپ تھی جس میں کوئی ذاتی معاملات جو شیڈول میں تھے ان کی نوبت نہ آئی مگر اس بار عمران نیازی کے حامیوں کو اس کا دفاع تقریباً نا ممکن لگ رہا تھا دوسری جانب خیال تو کیا جانا چاہیے تھا کہ ن لیگ کی بات ہو گی مگر بلاول بھٹو کا تھر کول اور اندرون سندھ میں کام، خارجہ امور پر کامیابیاں اور دنیا میں پذیرائی کو سب نے سراہا۔ مریم نواز کی جدوجہد، میاں نوازشریف کا استقلال اور عمران نیازی کے یوٹرن سب پر کھل کر بات ہوئی۔ مجھے یاد ہے میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ایک وقت آئے گا عمران خان اس بات سے مُکر جائیں گے کہ یہ حکومت میں بھی رہے ہیں آج کے اخبار میں شہ سرخیاں ہیں کہ اقتدار پورا نہیں ملا حالانکہ تاریخ میں اقتدار پورا تو الگ بات ان کو باقاعدہ حصار میں رکھ کر بچایا گیا اسٹیبلشمنٹ نے ان کو بہت ساتھ دیا اگر وہ دو قدم ان کو پارلیمانی نظام کے تحت چلنے کا کہتے یا چلنا پڑتا تو مریم اور بلاول ان کی حکومت کے بخیے ادھیڑ دیتے پھر اسٹیبلشمنٹ کو آنا پڑتا۔ عمران نیازی نے خود کہا کہ بل پاس کرانے کے لیے ایجنسیوں سے کہنا پڑتا تھا گویا خود اتنی اہلیت نہیں تھی کہ دلائل اور حقائق کی بنیاد پر کوئی بل ملکی مفاد میں پیش کر سکتے۔ آج موصوف حکمرانی سے ہی انکاری ہیں حکمران نہیں تو بزدار کیا ٹرمپ کی سفارش پر وزیراعلیٰ رہا؟ ان کی حکومت میں نا اہلیت اور ملک کی بربادی کا الزام جب حمایت کرنے کی وجہ سے اداروں پر آنے لگا تو وہ نیوٹرل ہو گئے۔ پھر بیانئے چلے ان کی تردیدیں اپنے بھی کرنے لگے لیکس نکلیں کچھ اس انداز سے کہ سارا معاشرہ منہ چھپائے پھرے۔ نیازی صاحب فرماتے ہیں شیر شای سوری بن جاتا اگر اختیار پورا ملتا حالانکہ پورے سے بھی کچھ زیادہ ہی تھا سارا نظام یرغمال تھا ہر ادارہ اپنی عزت بچاتے پھر رہا تھا شکر خدا کہ ان سے 3 سال 7 ماہ اور 3 دن میں جان چھوٹ گئی ورنہ یہ واقعی 2022 میں ملک کو 1540 میں لے جاتے یا پھر قاسم سوری سے متاثر ہو کر شیر شاہ سوری کا نام لیا ہو گا۔ ترقی یافتہ دنیا حادثاتی موت کے علاوہ دیگر اموات کا تدارک کرنے کی باتیں کر رہی ہے اور ہمارے نیازی صاحب 1540 میں واپس جانے کے متمنی ہیں۔ ترکیہ ٹچ، سعودی ٹچ، ملائیشیا ٹچ، امریکی ٹچ، انگلینڈ ٹچ، حتیٰ کہ اسلامی ٹچ بھی دے بیٹھے مگر یہ وہ پہلوان ثابت ہوئے جو کشتی گر جانے کے بعد کوئی نہ کوئی عذر پیش کر دیتے، عارف علوی نے بیان دے دیا اور بیانیہ برباد ہو گیا۔ میں نے آج تک کسی سیاست دان کے اقدامات بیانات اور حرکات کو اس کے فالورز کو اس قدر دفاع کرتے نہیں دیکھا جس قدر نیازی صاحب کے فالورز مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا ایک آدھی لائن کا بیان تھا ”ہمیں اقتدار چاہئے مگر ہر قیمت پر نہیں“۔ جبکہ نیازی صاحب کا مطمع نظر ہے کہ ہمیں بس اقتدار چاہئے اور ہر قیمت پر چاہے ملکی سلامتی، قومی یکجہتی، اداروں کی ساکھ، ملکی وقار، معیشت، معاشرت زمین بوس ہو جائے۔ چار صوبوں میں حکومت ہے مگر موصوف کو وزیراعظم بننا ہے چاہے ووٹ ملیں نہ ملیں۔ پی ٹی آئی سافٹ ڈرنک میں نمک ڈالنے کی مانند ہے جب فشار ختم ہو گا تو اُبال کھاتا ہوا پانی نیچے بیٹھ جائے گا۔ ویسے ان کو لانے والوں کو چاہئے تھا کہ یہ ایک میگا فلم بناتے…… وزیراعظم۔ اس میں خان صاحب کو مرکزی کردار دیتے کیونکہ بابر پر فلم، ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کا مشورہ، سدھیر کے مکالمے، سلطان راہی جیسی چال، سنجے دت جیسی عینک امیتابھ کی فلم سرکار کا کردار ان میں سرایت کر چکا ہے۔ اس فلم میں چیف جسٹس، آرمی چیف، وزیر اعظم سب اختیارات کا منبع بناتے اور اس میں عورتوں کی بھرمار، کھلنڈروں کی بہار، لونڈے لپاڑوں کی پکار کو خاص مقام ہوتا نام نہاد دانشوروں کو بھی کاسٹ کرتے فلم بناتے خوب سرمایہ خرچ کرتے۔ مگر حقیقی اقتدار دے کر ملک کا بیڑا غرق ہونے کے قریب نہ لے آتے۔  آج اس ایک شخص کی وجہ سے ہر محفل، ہر جگہ لوگ اس کے جھوٹ کے مقابلے سچ آنے پر جب موضوع بنتا ہے تو پھر گفتگو کار زار میں بدل جاتی ہے۔ ڈاکٹر خان نے اچانک کھانا لگانے کا حکم دیا جس کے بعد جناب سہیل احمد نے اپنی فلم ”بابے بھنگڑا پاندے نیں“ پر چلنے کی دعوت دی اور سب دوست ان کی قیادت میں ”بابے بھنگڑا پاندے نیں“ دیکھنے چلے گئے۔ بہت ہی شاندار فلم ہے جو فلم بین کو مکمل تفریح مہیا کرتی ہے شروع سے آخر تک Engage رکھتی ہے ویسے ملکی سیاست میں بھی بابے بھنگڑا پاندے نیں سوائے بلاول اور مریم کے قیادت اپنا اعتبار بحال کرنے کے مشقت طلب دور سے گزر رہی ہے۔ تھینک یو ڈاکٹر خواجہ، ڈاکٹر خان اور سہیل عزیزی صاحبان اور خصوصی شکریہ مسز ڈاکٹر گلریز محمود خان بہترین اور وافر کھانے کے لیے جو سال میں کم از کم چار بار تو ہوتا ہی ہے۔ سیاسی گفتگو منع ہے۔

مصنف کے بارے میں