معاہدہ کراچی یا غلامی کی دستاویز

معاہدہ کراچی یا غلامی کی دستاویز

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ ہر جمعہ کو اس کے خلاف احتجاج کیا کریں گے لیکن یہ احتجاج شائد ایک بار بھی نہیں ہوا۔ یہ اقدام پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے سنجیدگی کو سمجھنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ آج آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن ان حکومتوں نے بھی اپنے لیڈر کے اس حکم کو بجا لانے میں کبھی کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔ ویسے مظفرآباد اور گلگت میں بیٹھی ہوئی اشرافیہ سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ اس انتظام کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ کر سکیں۔ یہ سب لوگ تو سٹیٹس کو کے حامی ہیں اور انہیں علم ہے کہ یہ انتظام ان کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ کشمیر کی آزادی کی کوئی صورت نکلتی ہے تو ایسے میں ان کے اقتدار میں شراکت دار بڑھ جائیں گے اور یہ گمان بھی ہے کہ پھر اصل حکومت ان کی ہو گی۔ انہیں حکومت سے غرض ہے اور یہ انتظام انہیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ باری باری حکومت کر سکیں۔ سو جیسا چل رہا ہے اسی پر اکتفا کیا جائے۔ جیسے ہے جہاں کی بنیاد پر یہ نظام چل رہا ہے لیکن اس نظام کی وجہ سے کشمیریوں کی آزادی کا سفر مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ 
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر پہلے کی نسبت زیادہ گمبھیر ہو گیا ہے۔ مظفرآباد اور سری نگر میں کوئی بھی تال میل نظر نہیں آ رہا۔ کوئی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں ہے جو لکیر کے دونوں طرف کے عوام کو یکجا کر سکے۔ یٰسین ملک کی فرنٹ بھی خاموش ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی سپورٹ بہت کم ہو گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی حکومت سے جو امیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ بھارت نے ایک منصوبے کے تحت کشمیریوں کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک موقع تھا کہ سری نگر میں ترنگا نہیں لہرایا جا سکتا تھا لیکن آج پہلے والی صورت موجود نہیں ہے۔ صرف عمران کو دوش دینا کافی نہیں ہے سب نے اس "کار خیر" میں حصہ ڈالا ہے۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے پہلے اسلام آباد کو اعتماد میں لیا تھا۔
یہ سوچ ایک عرصہ سے پروان چڑھ رہی ہے کہ جس کے پاس جو ہے وہ اس کا ہے۔ پاکستان نے اس سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے فیصلہ کیا اور یہی اصل میں بھارت کے آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا سبب بنا۔ اگر پاکستان اس حوالے سے پہل نہ کرتا تو بھارت کو شائد ہی یہ سب کچھ کرنے کی ہمت ہوتی۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ گلگت بلتستان کا انتظام آزاد کشمیر کی حکومت کے حوالے کرتا اور چونکہ گلگت بلتستان کو ایک عرصہ سے سیاسی اور انتظامی عمل سے باہر رکھا گیا تھا تو اسے کشمیر کے ساتھ جوڑ کر الگ سے اسمبلی بنائی جاتی۔ کشمیر کا ایک وفاق بنایا جاتا اور اس کے دو صوبے ہوتے ایک موجودہ آزادکشمیر اور دوسرا گلگت بلتستان۔ ان کی الگ سے اسمبلی ہوتی اور ان کے اوپر ایک ایوان بالا اور پھر وزیراعظم اور صدر۔ آزاد کشمیر کی تاریخ میں ایک بھی صدر یا وزیراعظم کا تعلق گلگت بلتستان سے نہیں تھا اور اس کی وجہ یہی تھی کہ انہیں رائے دہی کے حق سے محروم رکھا گیا۔ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے کبھی اجتماعی طور پر آواز بلند نہیں کی کہ گلگت بلتستان کا انتظام ان کے سپرد کیا جائے اور 1949 میں جو معاہدہ ہوا تھا اسے ختم کیا جائے۔ انفرادی طور پر آواز بلند ہوتی رہی لیکن قومی سطح پر گلگت بلتستان کی دوبارہ کشمیر میں واپسی کے لیے کوئی تحریک شروع نہیں ہوئی۔ گلگت بلتستان کے پہلے 
وزیراعلیٰ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ نے کشمیر کے مسئلہ کو زیادہ خراب کر دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری کشمیر کے سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے ہمیں تو وہ انسان بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پوری تاریخ میں کبھی انہوں نے ہمارے حق رائے دہی کے لیے بات نہیں کی۔ کسی بھی اہم مشاورت میں ہمیں شامل نہیں کیا۔ حق بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے اور وہ اپنے آپ کو کشمیر سے الگ گردانتی ہے۔ ایک طبقہ اب بھی موجود ہے جو خود کو کشمیر کا  حصہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہمیں سیاسی معاملات 14 اگست 1947 کی پوزیشن پر واپس لے جانے چاہئیں مگر یہ آواز کمزور ہے۔
1949 میں کشمیر کے سیاستدانوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کے سپرد کر دیا تھا اس سے پہلے وہ کشمیر کا ایک انتظامی یونٹ تھا اور اس کی صرف ایک وجہ بیان کی گئی تھی کہ گلگت بلتستان کا انتظام چلانا ان کے بس میں نہیں تھا۔ یہ تاویل انتہائی کمزور ہے لیکن چونکہ یہ علاقہ پاکستان کے سپرد کرنا تھا سو ایک معاہدے پر دستخط کر دیے گیے جسے معاہدہ کراچی کہتے ہیں۔ ویسے معاہدہ کراچی بھی دو ہیں اور دونوں کشمیر سے متعلق ہیں لیکن ہم آج صرف گلگت بلتستان کی بات کر رہے ہیں۔ کئی دہائیوں تک اس معاہدے کی بھنک بھی عوام تک نہیں پہنچنے دی گئی اور اسے خفیہ رکھا گیا۔ اس معاہدے پر تین فریقین نے دستخط کیے ایک پاکستان کے وزیر بے محکمہ اور انچارج امور کشمیر مشتاق گورمانی، دوسرے ریاست کے صدر سردار ابراہیم خان اور تیسرے مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس۔ یہ معاہدہ نہیں گلگت کے عوام کو کشمیر سے الگ کرنے اور ریاست کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کی ایک دستاویز ہے۔
28 اپریل 1949 کو وزارت امور کشمیر حکومت پاکستان،حکومت آزاد جموں کشمیر اور مسلم کانفرنس کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جیسے معاہدہ کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان تقسیم کار کی تفصیلات طے کی گئیں۔ اس معاہدے کی ایک شق کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے علاقہ جات گلگت، بلتستان کے تمام معاملات عارضی طور پر حکومت پاکستان کے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ کی وساطت سے حکومت پاکستان کو منتقل کر دیئے گئے۔28 ہزار مربع میل پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کا یہ علاقہ اب تک حکومت پاکستان کے کنٹرول میں ہے حالانکہ یہ علاقے تاریخی، ثقافتی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہیں۔ 
اس معاہدے نے ایک طرف کشمیر کی آزادانہ حیثیت کو ختم کر دیا اور دوسری طرف اس کی وجہ سے پاکستان کو کشمیر پر کلی اختیار حاصل ہو گیا۔ اس کی رو سے کشمیر کا دفاع، خارجہ پالیسی، اقوام متحدہ کے ساتھ کشمیر سے متعلق مذاکرات، پاکستان کے اندر اور خارجی سطح پر مسئلہ کشمیر کی تشہیر، رائے شماری کے سلسلہ میں تشہیر میں باہمی رابطہ، کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اندر انتظامی معاملات کی دیکھ بھال جیسے خوراک کی فراہمی، سول سپلائی، ٹرانسپورٹ، مہاجر کیمپوں کا انتظام اور طبی امداد اور گلگت اور لداخ کے جملہِ انتظامات کا کنٹرول پاکستان کو مل گیا۔ اس معاہدہ کی رو سے آزادکشمیر کا کردار صرف مشاورت تک محدود ہو گیا۔ وہ صرف اپنے انتظامی امور تک معاملات کو دیکھ سکتی تھی اس سے دنیا میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا حق چھین لیا گیا اور ایسا صرف خوراک کی فراہمی کے بدلے میں ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے ریاست کا ایک بڑا حصہ ریاست سے کاٹ کر پاکستان نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ یہاں کے لاکھوں (گلگتی، بلتی) کشمیریوں کو پولیٹیکل ایجنٹ اور FCR جیسے ظالمانہ و فرسودہ نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ عوام کے بنیادی حقوق غصب کر لیے گئے تعلیم، علاج معالجہ، مواصلات اور تحریر و تقریر کے حقوق سلب کر لیے گئے۔ ریاست کے سیاستدانوں نے خود اپنے ہاتھ کاٹ کر دے دیئے اور پاکستان کے ساتھ مل کر ریاست کی تقسیم کر دی۔
کراچی کے ایک بند کمرے میں ہونے والا معاہدہ جس پر مشتاق گورمانی وزیر بے محکمہ اور انچارج کشمیر افئیرز، سردار ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس کے دستخط ہوئے ایک غلامی کی دستاویز نہیں تو کیا ہے کہ اس معاہدہ سے قبل کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ قوم کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی گلگت اور لداخ کا فیصلہ کرتے وقت وہاں کی قیادت سے کوئی رائے لی گئی۔ انگریزوں نے تو ایک قیمت وصول کر کے کشمیریوں کا سودا کہا تھا لیکن اس معاہدے میں کس نے کیا قیمت وصول کی اس کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ اس معاہدے سے ایک اور حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس معاہدے سے قبل آزاد جموں و کشمیر ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی جس کے پاس دفاع کا حق اور امور خارجہ کو چلانے کا کلی اختیار تھا۔ وہ اقوام متحدہ میں اپنا مقدمہ لڑنے کا اختیار بھی رکھتی تھی لیکن اس معاہدے کے بعد اقوام متحدہ میں اس کی حیثیت صرف پاکستان کے ایک مشیر کی رہ گئی اور اصل فریق یعنی کشمیر فارغ ہو گیا اور یہ تنازع دو ممالک کے درمیان ایک سرحدی تنازع کی شکل اختیار کر گیا۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں 
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مصنف کے بارے میں