حذر اے چہرہ دستاں۔۔ سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔۔!

حذر اے چہرہ دستاں۔۔ سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔۔!

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف نے 11اپریل پیر کی رات کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب جلیلہ کا حلف اُٹھانے کے بعد ملک کے 23ویں وزیرِ اعظم کے طور پر اپنے فرائض کی سر انجام دہی اس انداز سے شروع کر دی ہے کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے طور پر پنجاب سپیڈ کے نام سے جو تیزی طرازی اور حرکت و عمل ان کے نام سے جڑے ہوئے تھے، اب ان کی موجودہ پاکستان سپیڈ کے مقابلے میں آنے والے دنوں میں لگتا ہے وہ گرد راہ ہو کر رہ جائیں گے۔ میاں محمد شہباز شریف وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیسے پہنچے۔ چھ سات ہفتے یا ڈیڑھ دو مہینے قبل ایسا کوئی کہہ یا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن قسام ازل نے انسانوں کے مقدر میں جو کچھ لکھ رکھا ہے اسے کون مٹا سکتا ہے یا کون اس سے روگردانی کر سکتا ہے؟ اس قادر مطلق ذات کا اپنا فرمان ہے ’’اے مالک الملک! تو جسے ملک دے اور جس سے چاہے ملک چھین لے اور جسے تو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہاتھ میں تمام بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ بلا شبہ یہ تقدیر کا فیصلہ تھا یہ قسمت کا لکھا ہوا تھا کہ میاں محمد شہباز شریف کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کے ہما نے بیٹھنا تھا اور انہوں نے وزیرِ اعظم ہاؤس جس کے در و دیوار ان کے لیے کوئی ایسے اجنبی نہیں ہیں کہ تین بار ان کے برادر اکبر میاں نواز شریف بطورِ وزیرِاعظم پاکستان اسی وزیر اعظم ہاؤس کی ہواؤں اور فضاؤں میں سانس لیتے رہے ہیں۔ اس کی خواب گاہوں میں قیام اور اس کے برآمدوں، بالکونیوں، کوریڈوروں اور لانوں میں گھومتے پھرتے رہے ہیں۔ اسی وزیر اعظم ہاؤس میں میاں شہباز شریف بھی ان ادوار میں کتنے ہی شب و روز بسر کر چکے ہیں۔ لیکن اب کی بار میاں شہباز شریف وزیر اعظم ہاؤس میں آ کر متمکن ہونا یقینا پہلے سے مختلف ہے کہ اب وہ خود اس کے مکین بن کر آئے ہیں۔ وہ کتنا عرصہ اس کے مکین بن کر گزارتے ہیں یہ قسام ازل ہی بہتر جانتا ہے لیکن اسکا انحصار میاں شہباز شریف اور ان کی حکومت کی کارکردگی پر بھی یقینا ہے کہ قدرت جہاں پر خلوص نیت، پر عزم جدوجہد اور بلند ہمتی کی حامل شخصیات کو نوازتی ہے وہاں کھوکھلے نعرے لگانے اور جھوٹے وعدے کرنے والوں اور ضد، نفرت اور انتقام کی آگ میں جلنے والوں کو ڈھیل ضرور دیتی ہے لیکن انجام کار انہیں ذلت و رسوائی کے انجام سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
میاں شہباز شریف وزیرِ اعظم ہاؤس کے حق دار بن کر اس میں آن براجمان ہوئے ہیں ۔ ایسا کچھ آسانی سے نہیں ہوا۔ بلا شبہ قومی اسمبلی میں ایوان کی اکثریت کے وزیر اعظم (سابق) عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، جو 174ارکانِ قومی اسمبلی نے منظور کی تھی، کے نتیجے میں میاں شہباز شریف کی ایوان وزیر اعظم میں داخلے کی راہ ہموار ہوئی ۔ 10 اپریل اتوار کی ابتدائی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کم و بیش ایک ماہ قبل قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد بار بار زیرِ التوا رکھنے، تاخیری حربوں اور غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا نشانہ بنانے کے بعد بڑے جتنوں اور بڑی مشکلوں سے ایوان میں رائے شماری کے لیے پیش ہوئی تو یہ کچھ اتنا آسانی کے ساتھ اور ٹھنڈے پیٹوں نہیں ہوا۔ اس دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی فضائیں، پارلیمنٹ ہاؤس کی لابیاں اور ہال اور وزیر اعظم ہاؤس کے در و دیوار کتنے ہی یادگار اور دل دوز مناظر کے شاہد کتنی ہی کسی اور ان کی باتوں اور داستانوں کے امین، کتنے ہی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کے موقع کے گواہ اور کتنے ہی تاخیری حربوں اور ہتھکنڈوں کے راز دار اور کتنے ہی ضد، نفرت، ہٹ دھرمی اور انتقام کے رویوں اور راز و اسرار میں لپٹے محیر العقول واقعات کے عینی شاہد چلے آ رہے ہیں تو اس کے ساتھ اس دوران جہاں کتنے ہی سال سے تبدیلی کے دعویداروں جناب عمران خان کے مقدر کی تبدیلی ذلت، رسوائی اور کسمپرسی لیکن میں نہ مانوں کے انجام سے دوچار ہوتی اور ان کی طرف سے آخری وقت میں ترپ کے پتے کھیلنے اور سرپرائز دینے کے دعوے باطل ثابت ہونے کے مناظر یکے بعد دیگرے سامنے آتے رہے تو وہاں اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے آئین و قانون اور انصاف کی بالادستی کو اُجاگر کرنے والے فیصلے بھی سامنے آئے۔ اس کے ساتھ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ وہ جو اپنے حق میں ایمپائر کی اُنگلی اُٹھنے کے دعوے کرتے اور ایک پیج پر ہونے کے اعلان کرنے سے نہیں تھکتے تھے، انھیں بھی منہ کی کھانا پڑی کہ مقتدر ریاستی اداروں یا دوسرے لفظوں میں اسٹیبلشمنٹ نے ان کا آلہ کار یا ان کی جانبداری کرنے سے ہی انکار نہ کر دیا بلکہ اپنے نیوٹرل ہونے اور آئین و قانون کی پاسداری کا عملی ثبوت بھی بہم پہنچا دیا۔
جناب عمران خان کہتے ہیں کہ میرے خلاف رات بارہ بجے عدالتیں کھل گئیں، مجھے بتایا جائے کہ میرا قصور کیا ہے۔ جناب عمران خان کو کیا پتہ نہیں ہے کہ ان کا قصور کیا ہے۔ کیا وہ اور ان کے ساتھی بالخصوص سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی آئین و قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے، انھیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان پر آئین شکنی کے تحت آئین کی دفعہ چھ تک لاگو نہیں ہوئی ورنہ وہ صریحاً اس کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہاں 8مارچ کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے لے کر 10اپریل کے دن کی ابتدائی ساعتوں تک جب تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے 174ارکان کے ووٹوں سے منظور ہوئی میں پیش آنے والے حقائق کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب ریکارڈ پر ہیں اور تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاہم اتنا دہرانا شاید غیر ضروری نہ ہو کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے 3اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرنے کے بجائے اس کے ڈانڈے ایک غیرملکی (امریکی) سازش سے جوڑے ہوئے اسے مسترد کرتے کی غیر آئینی اور غیر قانونی رولنگ دی تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے فی الفور اس کا از خود نوٹس لے لیا۔ چار دنوں تک اس از خود نوٹس کی سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی لارجر بینچ کے سامنے سماعت ہوتی رہی۔ وکلا کی حکومتی ٹیم جس میں ہمارے مربی و مہربان ڈاکٹر بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، نعیم بخاری، امتیاز صدیقی اور اٹارنی جنرل جناب خالد جاوید بذاتِ خود شامل تھے کے پاس ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آئینی اور قانون کے مطابق ثابت کرنے کے لیے سوائے وقت کے زیاں کے کوئی قانونی دلائل نہیں تھے۔ لے دے کے ایک ہی نکتے پر زور دیا جاتا رہا تھا کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کی کارروائی میں دخل دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بینچ کے معزز ارکان میں جناب چیف جسٹس پیش پیش تھے۔ ایک ہی استفسار تھا کہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی آئین میں صراحت کر دی گئی ہے یہ ایک آئینی اقدام ہے جسے پارلیمنٹ کی عمومی کارروائی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی اسے مسترد کرنے کی رولنگ کو آئینی تقاضوں کے مطابق پرکھا جا سکتا ہے۔ یہ نکتہ ایسا تھا جس کا جواب نہ تو مکرم و محترم جناب ڈاکٹر بابر اعوان کے پیش کیے جانے والے دلائل میں تھا نہ ہی محترم نعیم بخاری کے بلند آہنگ میں تھا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے ایک ایسی بات کر کے اپنا پنڈ چھڑا لیا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کریں گے۔ اس سیاق و سباق میں سپریم کورٹ کے لارجز بینچ کی طرف سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے غیر آئینی اور غیر قانونی ہونے کا فیصلہ سامنے آیا تو اس میں کوئی حیرانی یا اچنبھے کی بات نہیں تھی۔
وزیرا عظم جو حکومت کے سربراہ اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتے ہیں کیا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عمل کرنا یا کردار کی آئینی و قانونی ذمہ داری نہیں بنتی ہے۔ کیا وزیر اعظم (سابق) جناب عمران خان نے اپنی اس آئینی و قانونی ذمہ داری کو پورا کیا۔ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ بلکہ اس کے بجائے ماہ اپریل (جس دن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی چاہیے تھی) کی رات ساڑھے دس بجے تک سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے عمل کو ہی جہاں تاخیر کا شکار کراتے رہے وہاں ایسا خطرناک اور خوفناک کھیل کھیلنے کی تیاری کیے بیٹھے رہے کہ یہ اگر پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تھا اللہ جانے اس ملک و قوم کو کس طرح کے ہوشربا واقعات کا سامنا کرنا پڑتا۔
جناب عمران خان اور ان کے یمین و یسار اور حامیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ 9 اور 10اپریل کی رات ساڑھے دس بجے اگر اعلیٰ عدالتوں کے دروازے کھل گئے تھے یا کچھ اور درپردہ تھا جن کی بازگشت میڈیا کے حلقوں میں کسی نہ کسی شکل میں سامنے آ چکی ہے پیش آئے تھے تو یہ جناب عمران خان اور ان کے حکومتی ساتھیوں کی طرف سے متوقع غیر آئینی اور غیر قانونی اور ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگانے والے اقدامات کی پیش بندی کے طور پر سامنے آئے تھے۔ جیسے اوپر کیا گیا اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ملک و قوم عمران خان کے ضد، ہٹ دھرمی اور انتقامی رویوں اور ردعمل کا شکار ہو کر اللہ جانے کس بھیانک انجام سے دو چار ہوتے۔
آخر میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے ایک ہی خواہ کے طور پر ان سے گزارش کرنی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا یقین کریں کوئی بھی ایسا فیصلہ یا اعلان نہ کریں جس پر عمل نہ کر سکیں۔ انہوں نے جونہی اسمبلی میں بطور قائد ایوان اپنے خطاب میں اس بات کا ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ میں تعینات سفیر کے مراسلے کو جسے عمران خان امریکی دھمکی اور اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کے اس میں ملوث ہونے کا الزام دھرتے ہیں کی فی الفور پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی میں ان کیمرہ بریفنگ اور جائزے کی صورت میں انکوائری کرائیں گے۔ اس پر بغیر تاخیر کے عمل کرا سکیں۔ کابینہ کی تشکیل میں تاخیر نہ ہونے پائے نہ ہی سویلین اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں یکم اپریل سے انہوں نے جس 10% اضافے کا اعلان کیا ہے اسے کسی معاشی مشکل کا عذر پیش کر کے واپس لیا جائے۔ محکمہ اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ سوچ سمجھ کر کی جانے والی فیصلہ سازی مضبوط حکمرانی کی پہچان ہوتی ہے۔

مصنف کے بارے میں