حساب، احتساب اور جھوٹ کا نتارا

 حساب، احتساب اور جھوٹ کا نتارا

کل میری ایک جناب اشتیاق احمد بٹ کے پوتے عرشمان دانا سے ملاقات رہی۔ دانا کا شاید نئی نسل کو بتانا پڑے گا کہ عقلمند جسے معرفت کی عقل عطا ہوئی ہو اسے کہتے ہیں محمد اشتیاق کا بیٹا عرشمان دانا ہر موضوع پر ماہرانہ اور غیرجانبدارانہ رائے رکھتے ہیں۔ موجودہ ملکی صورت حال کے متعلق کہنے لگے کہ یہ بہت پرانی بات نہیں۔ چند سال کی بات لوگوں کو اگر یہ بھی یاد نہیں تو قوم کہلانے کے مستحق نہیں، سوشل میڈیا آج سب سے بڑا اور بُرا ہتھیار ہے اگر اس کو منفی طور پر استعمال کریں۔موجودہ دور میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پی ٹی آئی اس کے منفی استعمال کے فن میں نمبر1 پر ہے۔ مختلف ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں۔ فوٹو شاپ سے جلسوں کی پکچر میں لبرٹی لاہور کو مین ہٹن امریکہ دکھایا جاتا ہے۔ 10 ہزار بندے کو لاکھوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد جب پی ڈی ایم کی بنیاد ستمبر 2020 کو قومی رہنما بلاول بھٹو کی میزبانی میں رکھی گئی، جس کے 26/28 نقاط تھے اور لائحہ عمل میں لانگ مارچ اس سے اگلا مرحلہ تحریک عدم اعتماد کا تھا۔ آصف علی زرداری، جن کی حکمت عملی نے عمران خان حکومت سے نجات دلائی، نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پر تو کام 2019 میں شروع کر دیا تھا مگر طاقتور حلقوں کی مداخلت نے روکے رکھا۔ اس لیے اب اس کو لایا گیا ہے تو دیکھیں کچھ کر پائے مگر جھوٹ، نظریہ ضرورت، دشنام طرازی، الزام تراشی، انتقام، سابقہ وفاقی حکومت کا دستور تھیٹر جبکہ ملکی حالات یہ تھے کہ زندگی تو زندگی موت مہنگی کر دی گئی۔ دوائیوں سے لے کر ضروریات زندگی کی ہر چیز موجود ہونے کے باوجود دسترس سے دور کر دی گئی۔ یہ قحط کی بد ترین صورت حال ہوا کرتی ہے۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا کہ جھوٹ کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد اس پر ایک لفظ بھی لکھتا مگر جھوٹ ہمیشہ سچ کو خاموش نہیں رہنے دیتا۔ کاذب اعظم کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ ملکی حالت یہ ہے کہ متعدد پاور پلانٹس بند ہیں، لوگ لودشیڈنگ سے پریشان ہیں اور موصوف اپنی ٹیم کے ساتھ کورس کی صورت جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ روس کا دورہ نہ ہوا، ’’کھوتی تھانے سے ہو آئی‘‘۔ موجودہ حکومت کو امپورٹڈ کہنے والے ابھی اپنی کابینہ اور ترجمانوں پر 
غور تو کریں۔ ڈیڑھ درجن سے زائد لوگ امریکہ اور یورپ سے تھے۔ آئین شکنی کو سرپرائز قرار دینے والا حکمران ملک کو کیا سنوار سکتا تھا، آئین شکنی کا معاملہ عدالت میں گیا، عدالت کے حکم پر اجلاس بلانے کے بعد رنگ بازی شروع کر دی گئی، رات بارہ بجے کے قریب جب عدالت کے گیٹ کھلے تو پتے پانی ہونے لگے۔ سپیکر مستعفی ہوا اگلے روز ڈپٹی سپیکر بھی مستعفی ہوا مگر پی ٹی آئی کے استعفے اب بھی منظور کر لیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کہہ دیا کہ امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں تھے پھر یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیا تھی جو صحافی کے منہ میں سوال ڈالا اور جواب دیا، Absolutely not اور پھر اس کا ٹرینڈ بنا دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سازش کے لفظ کی بھی نفی کر دی۔ بقول عمران خان کے جنرل باجوہ تاریخ کے بہترین جرنیل ہیں لہٰذا ان کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات کو تو نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ عمران خان کے بیانیے کے مطابق بیرونی سازش ہوئی ہے تو غصہ پاک فوج پر کیوں؟ صرف اس لیے کہ انہوں نے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی حکمرانوں کو اپوزیشن سے این آر او نہیں دلایا۔ جو کہا گیا کہ بیچ بچاؤ کرائیں، کوئی راستہ نکالیں، کوئی مشورہ ہی دیں۔ انہوں نے استعفیٰ، عدم اعتماد یا پھر انتخابات کا مشورہ دیا جو اپوزیشن نے Absolutely not کہہ کر انکار کر دیا۔ موصوف نے دن رات ایک کیا، چودھری شجاعت، ایم کیو ایم، آزاد، منحرفین سب کی منتیں کیں مگر زرداری جس کی طرف بندوق کے نشانے کا اعلان کر چکے تھے، کے وار نے ان کو دو ٹکڑے کر دیا۔ عمران خان نے ماجد خان سے لے کر علیم خان اور جہانگیر ترین ہو یا کوئی اور سب کو استعمال کیا، پیسہ، ذہانت، تعلقات، اثر و رسوخ استعمال کیا، بے وفائی کی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ این آر او درکار ہے کہ فرح شہزادی، بزدار، اعظم خان، فارن فنڈنگ کیس اور دیگر معاملات کو نہ چھیڑا جائے۔ یہ خبریں 6 ماہ سے گردش کر رہی تھیں، بلاول بھٹو تو ان باتوں کا جواب صرف اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عدم مداخلت کے مطالبے کی صورت دہرا دیتے مگر مریم بی بی جن کو قیدی والد کے سامنے جس انداز سے گرفتار کیا، بے گناہ جیل میں رکھا، ان کا جواب تھا قانون اپنا راستہ لے گا، گویا این آر او نہیں ملے گا۔ جب سابقہ وزیراعظم کے علم میں آیا کہ زرداری نے وہ کاری ضرب لگائی ہے کہ ان کا اقتدار جانبر نہیں ہو سکے گا تو پھر ان کے خلاف بندوق کا نشانہ لے آئے۔ زرداری صاحب نے کہا تو آ تو سہی۔ عمران خان بھی آیا نہیں آخری بال ابھی ملی نہیں۔ خواجہ سعد رفیق اور فواد چودھری کی قومی اسمبلی میں ملاقات اور شیر و شکر ہونے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ اس کو دیکھ کر عوام جیالے، متوالے اور جنونی یاد رکھیں کہ جیسے ہر شخص نوکری، کاروبار، مزدوری کرتا ہے کچھ نہ کچھ روزگار رکھتا ہے آج کے سیاست دانوں کا سیاست کاروبار ہے، ان کو جیسے موزوں لگے گا، کریں گے، دن میں دو پارٹیاں بدلیں گے کچھ بھی بول دیں گے۔ چپڑاسی کے قابل نہ ہونے والا وزیر، پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو وزیراعلیٰ نامزد ہو گا۔ جس ملک میں بزدار کے اقتدار کا سانحہ ہو گیا، جیالوں، جنونیوں اور متوالوں کو اعتدال کی طرف آنا ہو گا۔ بیرون ملک پاکستانی سوشل میڈیا پر اس قدر غلیظ پوسٹیں لگا رہے ہیں کہ پڑھی نہیں جا سکتیں۔ جو اپنی ماؤں کے جنازے پر نہ آئے وہ پاکستانیوں کو مائیں بیچنے کا طعنہ دے کر انتہائی ذمہ دار عہدیداروں کی تصویریں لگا رہے ہیں۔ عمران خان غصہ تو تب کرے کہ اس کی حکومت بالکل جائز تھی یا اس کو غیر جمہوری طریقہ سے نکالا گیا ہے۔ اس کا کون سا بین الاقوامی تہلکہ خیز پروگرام تھا جو بین الاقوامی قوتیں اس کا سوچتیں۔ اب اگر انہوں نے گالی، دشنام طرازی، الزام تراشی اور نظریہ جھوٹ کو ہی جاری رکھا تو دوسری جانب سے سچ ضرور آئے گا۔ کچھ تو شرم ہوتی ہے قوم سے اتنا جھوٹ نہ بولیں کہ پھر سچ لکھنے کو کسی اور قوم کے مورخین آئیں گے۔
دانا سے گفتگو جاری رہے گی۔ عمران خان وہ پہلوان ہیں جو ہر کشتی ہارنے کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے۔ ساڑھے تین سال حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں سے کی وہ عدم مداخلت اور غیرجانبداری کی پالیسی پر آئے وزیراعظم سلیکٹڈ سے آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے ریجیکٹڈ ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کی وضاحت نے عمران بیانیہ ڈھیر کر دیا جس کی تائید شاہ محمود قریشی نے بھی کر دی۔ عمران خان ساڑھے تین سال ’’ویلے‘‘ فارغ موجیں مارنے کے بعد اب دوبارہ کام پہ لگ گئے ہیں مگر اب سیاں جی کوتوال ہیں اور نہ ہی عوام کارکردگی سے بے خبر۔ اب ایک کھاتہ ہے جس کا حساب دینا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، جھوٹ کہہ مکرنیاں، ملک و قوم کی زبوں حالی، نام نہاد خط میں لپیٹ کر دفنائی نہیں جا سکتی۔ 2014 میں ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا 2022 میں پانے کو کچھ نہیں۔ بس حساب ہے، احتساب ہے اور جھوٹ سچ کا نتارا ہے۔

مصنف کے بارے میں