ڈیئر غالب نے کہا ،کعبہ کس منہ سے جاؤ گے

ڈیئر غالب نے کہا ،کعبہ کس منہ سے جاؤ گے

ایک زمانہ تھا جب اِس دھرتی پر بسنے والے لوگ سماجی، مذہبی، مشرقی روایات اور وضع داری کے امین تھے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب سب سادہ تھے اور سادگی کو کمزوری یا طعنہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھر ہر طرف شعور کی آندھی چلی جس نے سادگی، روایات اور وضع داری کو سوکھے پتے بنا کر اڑا دیا۔ شعور کے تحت ایشوز کو اپنے نقطہ نظر سے پرکھا جاتا ہے، جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور ٹھونک بجا کر دیکھا جاتا ہے۔ شعور کے تحت ہونے والے ایکشنز میں کمرشل نفع نقصان کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے شعور کی چادر اوڑھتے ہی ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں پرانی روایات اور وضع داریوں کو کافی حد تک خیرباد کہہ دیا گیا کیونکہ اِن سے کمرشل نفع نقصان جُڑ نہیں سکتا تھا۔ البتہ شعور کے اُسی چالاک ایکشن کے تحت اپنے آپ کو وضع دار یا روایات کا امین ثابت کرنے کے لیے کچھ روایات کی ظاہری پرفارمنس جاری رکھی گئی اور کمرشل نفع کے لیے اپنی بساط کے مطابق اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کا بندوبست بھی کیا جانے لگا۔ اس طرح اِن روایات پر عمل ایک دکھاوا یا سطحی روٹین کا عمل بن گیا۔ سادہ جملے میں اسے ’’خوشبو اور نازکی کے بغیر پھول‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اسی دکھ کو لے کر آج کی بات کریں تو سب سے پہلے رمضان المبارک کے دوران ہمارے پیارے لوگوں کے رویے ہیں۔ یہ ماہ رب کریم کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کا بھی یہ ماننا ہے کہ نیکیوں کے اس موسم بہار میں روزے دار کو بعض بشری و انسانی کمزوریوں سے ضرور اجتناب کرنا چاہئے جن میں غصہ، جھوٹ، غیبت، منافقت اور سازش وغیرہ شامل ہیں۔ جب یہاں کے لوگ سادہ اور وضع دار تھے تو برکتوں کے اس مہینے میں ان بنیادی باتوں کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ رمضان المبارک تو اب بھی ویسا ہی بابرکت ہے لیکن اب اکثر روزے دار اس ماہ میں عام مہینوں سے زیادہ غصیل اور اُکتائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دفتری اوقات میں سرکاری کمی کے باوجود اکثر ملازمین ڈیوٹی کے لیے لیٹ آتے ہیں اور نماز ظہر کا کہہ کر جلد چھٹی کر جاتے ہیں۔ پبلک ڈیلنگ کے معاملات میں ہر جگہ چڑچڑا پن نظر آتا ہے۔ بالکل اسی طرح اکثر کاروباری حضرات بھی اپنا مال بیچتے ہوئے رمضان المبارک اور 
دوسرے مہینوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے۔ اوپر بتائے گئے سب شعبوں کے لوگ رمضان المبارک میں مذکورہ انسانی کمزوریوں سے پرہیز کرنے کی بات بھی ضرور کرتے ہیں۔ کیا ان کا یہ کہنا ماہ رمضان کی اصل روایات سے صرف ظاہری تعلق جوڑنا نہیں ہے جسے منافقت کہنا چاہیے؟ جب یہاں کے لوگ سادہ اور وضع دار تھے تو رمضان المبارک میں معاشرے کی سادگی اور وضع داری کا عکس اکلوتے سرکاری ٹیلی ویژن اور سرکاری ریڈیو پر بھی محسوس ہوتا تھا۔ نشریات کے دوران شوخ میوزک، زیادہ شوخ پروگرام اور ان سے بھی زیادہ شوخ اشتہارات بابرکت مہینے کے احترام میں خودبخود روک دیئے جاتے تھے۔ اب جدید تقاضوں کو پورا کرتے لاتعداد چینلز اور ریڈیو سٹیشنز پروگراموں اور کمرشلز کی دلربا عریاں شوخیوں کو ماہ رمضان کے بابرکت ماحول کے آداب کے منافی نہیں سمجھتے جبکہ انہی چینلز اور ریڈیو سٹیشنز پر رمضان المبارک کی روایات کی پاسداری کی بات بھی کی جاتی ہے۔ کیا ان کا یہ کہنا ماہ رمضان کی اصل روایات سے صرف ظاہری تعلق جوڑنا نہیں ہے جسے منافقت کہنا چاہیے؟ ہماری زندگیوں میں سیاست آکسیجن سے زیادہ اہم ہو چکی ہے۔ یہ کسی دشمن کی حرکت ہے یا ہمارے ذہنی دیوالیہ پن کی نشانی، یہ ایک الگ بات ہے لیکن سیاست کے تماشے میں کام کرنے والوں اور انہیں دیکھنے والے تماش بینوں کے بارے میں کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے اس مہینے اور باقی گیارہ مہینوں میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق ڈالا ہو۔ اس ماہ میں بھی سیاسی تھیٹر میں جھوٹ کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار برقرار رکھے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے ریکارڈ توڑے جاتے ہیں۔ بہت ہی معمولی تنقید پر بھی لعنت بھیج کر ٹاک شوز کے دوران گالم گلوچ کی جاتی ہے۔ ہوٹل میں افطار کے دوران مخالف کو گالیاں دی جاتی ہیں اور منع کرنے پر مکا مارا جاتا ہے۔ سب مخالفین ایک دوسرے کو اس حد تک بُرابھلا کہتے ہیں کہ شیطان بھی شرما جائے۔ ایک دوسرے کی پردہ داری ہمارے مذہب میں بہت پسندیدہ عمل ہے لیکن جدید سیاست دان کے لیے مخالفین کی پردہ داری نہ رکھنا ایک پسندیدہ ہتھیار ہے جبکہ سیاست کے یہ سب لوگ ماہ رمضان کی روایات کی اہمیت پر زور بھی دیتے ہیں۔ کیا ان کا یہ کہنا ماہ رمضان کی اصل روایات سے صرف ظاہری تعلق جوڑنا نہیں ہے جسے منافقت کہنا چاہیے؟ جب یہاں کے لوگ سادہ اور وضع دار تھے تو رمضان المبارک میں عبادات کا سلسلہ تب بھی جاری تھا مگر اُس وقت جدید ٹیکنالوجی اور ایئر کنڈیشن جیسی سہولتیں عام میسر نہیں تھیں۔ سخت گرمی اور سخت سردی میں بھی لوگ خوشی، انہماک اور تسلی سے عبادات کرتے تھے۔ انہیں عبادات کی ادائیگی کے دوران کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ عبادات کے بعد ان کے چہروں پر عموماً خوشی اور سکون دکھائی دیتا تھا۔ اب جدید ٹیکنالوجی، ایئر کنڈیشن اور ٹھنڈے گرم ماحول کی سب سہولتیں میسر ہیں اور لوگ اِس ماہ میں عبادات بھی بھرپور طریقے سے کرتے ہیں لیکن اکثر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی عبادات کو جلد سے جلد مکمل کر لیں۔ عبادات کے بعد ان کے چہروں پر عموماً دوسرے کاموں کی فکر بھی نظر آتی ہے جبکہ یہ لوگ ماہ رمضان کی عبادات کو دل کا اطمینان بھی کہتے ہیں۔ کیا ان کا یہ کہنا ماہ رمضان کی اصل روایات سے صرف ظاہری تعلق جوڑنا نہیں ہے جسے منافقت کہنا چاہیے؟ جب یہاں کے لوگ سادہ اور وضع دار تھے تو خواہش کے باوجود کم وسائل کی وجہ سے مکہ شریف اور مدینہ شریف نہیں جا سکتے تھے۔ اس لیے وہ دور سے ہی اپنی حسرتوں کو آنکھوں میں سجا لیتے تھے۔ اب وسائل کی موجودگی اور جدید سفری سہولتوں کے باعث اکثر عام لوگ بھی یہ بابرکت مہینہ مکہ شریف اور مدینہ شریف میں گزارتے ہیں لیکن واپسی پر اکثر لوگوں کے سابقہ رویوں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ یہ لوگ اس مہینے میں عمرہ اور عبادات کے لیے عرب جاتے ہوئے بھی اپنا دنیاوی رعب اور اعلیٰ مرتبہ ہر صورت میں برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی رمضان المبارک کی اہمیت اور برکات پر خوب بڑھ چڑھ کر بات کرتے ہیں۔ کیا ان کا یہ کہنا ماہ رمضان کی اصل روایات سے صرف ظاہری تعلق جوڑنا نہیں ہے جسے منافقت کہنا چاہیے؟ کیا سادگی سمجھداری نہیں تھی؟ کیا باشعور ہونے کے لیے ہر معاملے میں نفع نقصان اور تشہیر کا حساب کتاب رکھنا ضروری ہے؟ اللہ پاک اپنے فضل سے نبی پاک ؐ کے صدقے ہمیں معاف فرمائے، آمین۔ ڈیئر غالب نے صدیوں پہلے کہا تھا کہ:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

مصنف کے بارے میں