ہم صحرا خرید رہے ہیں

ہم صحرا خرید رہے ہیں

ایک دانا آدمی کی گاڑی گاؤں کے قریب خراب ہوگئی اس نے سوچا کہ گاؤں سے کسی کی مدد لیتا ہوں وہ جیسے ہی گاؤں میں داخل ہوا تو  اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص چارپائی پر بیٹھا ہے اور اس کے قریب مرغیاں دانہ چگ رہی ہیں ان مرغیوں میں ایک باز کا بچہ بھی ہے جو مرغیوں کی طرح دانے چگ رہا ہے وہ حیران ہوا اور اپنی گاڑی کو بھول کراس بوڑھے شخص سے کہنے لگا کہ یہ کیسے خلاف قدرت ممکن ہوا کہ ایک باز کا بچہ زمین پر مرغیوں کے ساتھ دانے چگ رہا ہے تو اس بوڑھے شخص نے کہا دراصل یہ باز کا بچہ صرف ایک دن کا تھا جب یہ پہاڑ پر مجھے گرا ہوا ملا میں اسے اٹھا لایا یہ زخمی تھا میں نے اس کو مرہم پٹی کرکے اس کو مرغی کے بچوں کے ساتھ رکھ دیا جب اس نے پہلی بار آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو مرغی کے چوزوں کے درمیان پایا یہ خود کو مرغی کا چوزہ سمجھنے لگا اور دوسرے چوزوں کے ساتھ ساتھ اس نے بھی دانہ چگنا سیکھ لیا۔ 
اس دانا شخص نے گاؤں والے سے درخواست کی کہ یہ باز کا بچہ مجھے دے دیں تحفے کے طور پر یا اس کی قیمت لے لیں میں اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں۔ اس گاؤں والے نے باز کا بچہ اس دانا شخص کو تحفے کے طور پر دے دیا یہ اپنی گاڑی ٹھیک کرا کر اپنے گھر آ گیا۔وہ روزانہ باز کے بچے کو چھت سے نیچے پھینک دیا کرتا مگر باز کا بچہ مرغی کی طرح اپنے پروں کو سکیڑ کر گردن اس میں چھپا لیتاوہ روزانہ بلاناغہ باز کے بچے کو اپنے سامنے ٹیبل پر بٹھاتا اور اسے کہتا کہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کراسی طرح اس نے کئی دن تک 
اردو، پنجابی، سندھی سرائیکی، پشتو ہر زبان میں اس باز کے بچے کو کہا کہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو۔ 
آخر کار وہ دانا شخص ایک دن باز کے بچے کو لے کر ایک بلند ترین پہاڑ پر چلا گیا اور اسے کہنے لگا کہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرو تم باز کے بچے ہو اور اس شخص نے یہ کہہ کر باز کے بچے کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے پھینک دیا باز کا بچہ ڈر گیا اور اس نے مرغی کی طرح اپنی گردن کو جھکا کر پروں کو سکیڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ زمین تو ابھی بہت دور ہے تو اس نے اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اڑنے کی کوشش کرنے لگاجیسے کوئی آپ کو دریا میں دھکا دے دے تو تیرنا نہ جاننے کے باوجود بھی آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے۔ 
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے آپ کو بیلنس کرنے لگا کیونکہ باز میں اڑنے صلاحیت خدا نے رکھی ہوتی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ اونچا اڑنے لگا۔ وہ خوشی سے چیخنے لگا اور اوپر اور اوپر جانے لگا۔ کچھ ہی دیر میں وہ اس دانا شخص سے بھی اوپر نکل گیا اور نیچے نگاہیں کرکے اس کا احسان مند ہونے لگا۔ تو دانا شخص نے کہا اے باز میں نے تجھے تیری شناخت دی ہے اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا۔ یہ کمال صلاحیتیں تیرے اندر موجود تھیں مگر تو بے خبر تھا۔یہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے۔ ہماری ایک خاص شناخت ہے۔
ہم ایک خاص امت کے ارکان ہیں۔ ہم ایک ایٹمی ملک کے شہری ہیں۔ہمارے اندر اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہیں۔مگر پرابلم یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد بے شمار مرغیاں ہیں جن میں ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات بھی شامل ہیں۔
 جو مسلسل ہم کو بتاتے ہیں کہ ہم باز کے نہیں مرغی کے بچے ہیں۔ جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم سپر پاور نہیں ہو سپر پاور کوئی اور ہے۔ جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم بہادر اور طاقتور نہیں ہو بلکہ بزدل اور کمزور ہو۔ تمھاری تو قوم ہی ایسی ہے۔ تم دہشتگرد ہو تم لوگ آگے نہیں بڑھ سکتے۔کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم خود کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ ہم ایک بہترین امت اور بہترین قوم بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
آزادی کا تعلق جھنڈیاں لگانے اور جھنڈے لہرانے سے نہیں آزادی کا تعلق  موٹر بائیک بغیر سائلنسر کے چلانے سے نہیں ہے؟آزادی کا تعلق باجے بنانے سے نہیں ہے۔۔۔آزادی کا تعلق مضبوط کردار سے ہے۔۔آزادی کا تعلق احساس ذمہ داری سے ہے۔۔۔آزادی کاتعلق فرائض کو بخوبی سر انجام دینے سے ہے۔۔آزادی کا تعلق ملک کی خیر خواہی اور کرپشن کے خلاف جہاد سے ہے۔۔۔آزادی کا تعلق دین پر عمل پیرا ہونے سے ہے۔۔۔آزادی کا تعلق اپنے بزرگوں کی امانت کو سنبھالنے سے ہے۔۔۔ان کی قربانیوں کی لاج رکھنے سے ہے۔۔۔خالی جھنڈے لگا نا اور تقاریب منعقد کرانا محض ایک رسم ہے اور یہ رسم پچھلے پچھہتر سال سے جاری ہے۔اس کہنہ رسم کو ختم کرکے ملک و قوم کی بہتری اور ترقی کی طرف سوچنا ہی حقیقی آزادی ہے۔یہی جذبہ ایمانی بھی ہے اور رسمِ شبیری بھی ہے۔بقول احمد ندیم قاسمی۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے 
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو