بیٹیاں باپ کے جنازو ں کی وارث ہوتی ہیں

بیٹیاں باپ کے جنازو ں کی وارث ہوتی ہیں

گزشتہ دو دن سے فیصل آباد میں بیٹیوں کے قتل کے بعد خود کشی کرنے والے باپ رانا عتیق الرحمان بارے لکھنے کا سوچ رہا تھا لیکن پہروں کاغذ قلم لئے بیٹھا رہا لیکن یوں محسوس ہوتا تھا کہ لفظ میرے ذہن کی لغت سے کوئی چرا لے گیا ہے ۔ جو بھی لکھتا لفظ معنی اور مفہوم ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے اور میں جھنجلا کربار بار اپنا لکھا کاٹتا رہا ۔ میرا ذہن یہ سمجھنے سے عاری تھا کہ کوئی کیسے اپنی 17 اور 12 سالہ بچی کو صرف اپنی معاشی ناکامی کی بھینٹ چڑھا سکتا ہے ۔ بیٹیاں باپ کے جنازوں کی وارث ہوتی ہیں ۔بیٹی کیلئے درِ توبہ بھی بند ہو جائے تو باپ کے گھر کا دروازہ کھلا رہتا ہے ۔ہم 75 سال کی طویل مسافت کے بعد کس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ کوئی کسی کا نہیں رہا۔ بری معیشت نے سماجی رشتوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی ہے ۔ صرف 14 ہزار 600 روپے کرائے کی ادائیگی نے عتیق الرحمان سے کیا کرا دیا ۔ سارے سماج کا منہ کالا کر کے چلا گیا ۔ اُس نے اپنے کسی عزیز کوکال بھی کی جس کی آڈیو وائرل ہوئی جسے سن کر کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے ۔ فیصل آبادارب پتی لوگوں کا شہر ہے ٗ بجلی نہ ملے تومزدور سٹرکوں پر بھیج دیتے ہیں ٗ لیکن اُسی مزدور کی محنت کے نتیجے میں کمائی ہوئی دولت سے اُس غریب مزدور کو ضروریات ِ زندگی تو دور کی بات کفن دفن کیلئے بھی کچھ نہیں دیتے ۔ یہ معاشرہ تو اُن عربوں سے بھی گیا گزرا بن گیا ہے جہاں بیٹیوں کو غیرت کے نام پر زندہ دفن کیا جاتا تھا ۔ وہ بیٹیاں جن کو گود میں اٹھا کر ٗ اپنے سینے پر سلا کر باپ نے بڑا کیا ہوتا ہے یکلخت ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ اُسی بیٹی کا گلہ کاٹتے ہوئے انسان کانپتانہیں !اُن بیٹیوں کی آنکھیں  کیسی حیرت اور بے یقینی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہوں گی جب اُنہوں نے خنجر اپنے باپ کے ہاتھ میں دیکھا ہوگا ۔وہ کیا سوچ رہی ہوں گی ؟ انہیں کس جرم میں قتل کیاجا رہا ہے ؟ عتیق الرحمان نے بیٹیوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کرلی یقینا اُس کے پاس اس قتال کا کوئی جواب نہیں ہو گا۔اُس نے خون میں لت پت ایک خط بھی چھوڑ جس میں اُس نے ایدھی فائونڈیشن سے اجتماعی قبرکی درخواست کی ٗ اپنے گھر کا سامان بھی ایدھی کو دینے کی وصیت کی تھی لیکن اس سانحہ کا ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اُس نے اپنے بہن بھائیوں سے مرنے کے بعد بھی مدد لینے سے انکار کیا ہے ۔اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے خونی رشتوں سے مرنے کے بعد بھی تعلق نہ رکھنا چاہے۔ جن کے ساتھ ایک ہی گھر میں پل کرجوان ہوا ہو ٗ جن کے سنگ کھیلا کودا ہو ٗ مٹی کے گھروندے بنائے ہوں ٗ بچپن کے چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے کیے ہوں ٗ جنہیں ایک ماں باپ نے ایک آسمان تلے ایک ہی چھت کے نیچے ٗ ایک جیسی محبت سے پالا ہو انسان اُن سے اتنا دکھی ہو جائے۔یہ اس ٹوٹتے ہوئی فیملی سسٹم کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔خدا یہ وقت کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے ۔
اپنی رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھا ابھی میں چند منٹ پہلے عظیم روسی ناول نگار دوستو فیسکی کا ناول ’’ ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ سے کچھ اقتباسات لکھ رہا تھا کہ دوسرے کمرے سے مجھے بچوں کے لڑائی جھگڑ ے کی چیخ وپکار سنائی دی ۔ میں نے ایک لمحے کیلئے در گزر کرنے کا سوچا لیکن اگلے لمحے کسی انجانے جذبے کے تحت میں بجلی کی سی رفتار سے اٹھا اور دوسرے کمرے میں جاپہنچا گیا۔ دس سالہ ثویبہ،  6 سالہ تخلیق اور 8سالہ عضب تینوں بچے ایک دائرے کی شکل میں برسرِپیکار ایک دوسرے کے بال کھینچتے ہوئے یک زبان اجتماعی گریہ اورآہ و بکا میں مصروف تھے ۔ یہ سہ مکھی لڑائی میری سمجھ سے باہر تھی کیونکہ ثویبہ انتہا کی صلح پسند ٗ عضب سازشی اورتخلیق جھگڑالو ہے ۔بظاہرایسے رویے کے بچوں کی بیک وقت لڑائی ممکن نہیں ہوتی کیونکہ سازشی اکثر لڑائی سے باہر یا پھر سازش پکڑے جانے پر جھگڑالوکے ہاتھوں پٹ رہا ہوتاہے ۔ صلح پسند ہمیشہ جھگڑالو کے زیر عتاب رہتا ہے یا سازشی کی کسی سازش کا شکار مگر آج تینوں کوایک دائرے میں لڑتے دیکھ کر مجھے معاملہ سمجھنے کیلئے پہلے اس لڑائی کو ختم کرانا تھا ۔ کمرے میں میری موجودگی کو محسوس کرتے ہی ثویبہ نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے تخلیق اورعضب دونوں بال چھوڑ دیئے ۔ دوسرے  دونوں بچوں نے اس جنگی سخاوت کو کسی نئے حملے کی تیاری سمجھتے ہوئے پسپائی اختیار کی اور ادھر اُدھر دیکھنا شرو ع کردیا اورمجھ پرنظر پڑتے ہی تینوں نے یک زبان ہو کر اپنا الگ الگ موقف اور وجہ عناد بیان کرنا شروع کر دی جس کے مطابق پھڈا آئی پیڈ کا تھا۔ ثویبہ ڈکشنری دیکھنا چاہتی تھی ۔عضب کارٹون اور تخلیق اے آر وائی کا معروف مزاحیہ ڈرامہ ’’بلبلے ‘‘دیکھنے پر بضد تھا ۔ میں نے تخلیق کو سخت بُرا بھلا کہا جبکہ دونوں بیٹیاں سہم کرکھڑی ہو گئیں ۔تخلیق پر میری ڈانٹ ڈپٹ کا شاید 10 فیصد اثر ہوا ہو گا کیونکہ وہ میدان خالی دیکھ کر فوری طور پر آئی پیڈ پر قابض ہو گیااس نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی جس پر مجھے بہت غصہ آیا لیکن دونوں بیٹیاں خوف زدہ تھیں ۔میں نے ایک نظرغصے سے تینوں بچوں کو دیکھا اور واپس اپنے سٹڈی روم میں آ گیا ۔  
اب دوسرے کمرے میں مکمل خاموشی تھی ۔میں نے چند منٹ لمبے لمبے سانس لئے اور ناول دوبارہ پڑھنا شروع کردیا ۔ تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ کوئی کمرے میں موجود ہے ۔میں نے مڑ کردیکھا تو سہمی ہوئی میری دونوں بیٹیاں کھڑی بغیر آواز کے رو رہی تھیں ۔ میرا کلیجہ منہ کو آ گیا میں نے ناول ایک طرف رکھا اورکرسی سے اٹھ کر دونوں بیٹیوں کی طرف بڑھا تو انہوں نے میرے ساتھ لپٹ کرزارو قطار رونا شروع کردیا ۔وہ روتے ہوئے مجھ سے معافی مانگ رہی تھیں جبکہ میرے تو ذہن میں ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی ۔ بڑی بیٹی نے کہا ’’ پاپ ہمیں معاف کردوہم آئندہ لڑائی جھگڑا نہیں کریں گے ۔‘‘ میں بچوںکو ڈانٹنے کے جس واقعہ سے لا تعلق ہو چکا تھا میری بیٹیاں ابھی تک اُسی صدمے میں تھیں کہ اُن کا باپ ناراض ہو گیا ہے اوراِدھر میں تھا جس کے علم میں کچھ بھی نہیں تھا ۔ میں نے دونوں کو سینے سے لگایا اور اُن سے معذرت کی وہ میری پیشانی چوم کرچلی گئیں۔میں دیر تک صدمہ میں رہا کہ ایسا کیوں ہوا میں نے اپنی بیٹیوں کے جذبات اوراحساسات کا خیال کیوں نہیں کیا؟ میں اپنی نظر میں شرمندہ اورصدمے میں تھا کہ میری سماعت پر رانا عتیق الرحمان کی آواز کپکپاتی ہوئی آواز پڑی کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو قتل کردیا ہے اوراب میں خود کشی کرنے لگا ہوں۔ پاکستان آزادی اورغلامی کی متوالوں کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے۔ عنقریب پاکستان امریکی غلامی سے آزاد ہوکرچینی اورروسی غلامی میں چلا جائے گا ۔ ہم کشکول توڑنا نہیں بدلنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے درد کے انگنت افسانے تحریر ہو چکے ہوں گے ۔رانا عتیق الرحمان اُس کے دونوں بیٹیاں ہر غلامی سے آزاد ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئیں جہاں وہ حکمران اشرافیہ ٗ بالادست طبقات ٗسرمایہ داروں ٗ جاگیرداروں ٗ ریاستی ملائوں اورگدی نشینوں کے خلاف ایف آئی آر لیے حاکموں کے حاکم کے دربار میں کھڑی ہیں۔ جس عدالت کا سو موٹو قومیں صفحہء ہستی سے مٹا دیتا ہے ٗ جس عدالت میں بریف کیس نہیں چلتے ٗ جہاں کوئی سول اور ملٹری بیوروکریٹ حکم ٗدرخواست یا سفارش کی جرات بھی نہیں کرسکتا اورجنہوں نے شفاعت فرمانی ہے وہ کبھی ظالموں کے حمایتی نہیں تھے ۔ وہاں مدینہ کا رستہ دکھا کر کوفے میں لا کر ذبح کرنے والوں کیلئے کوئی رعایت نہیں ٗ وہاں ظالم اورغافل حکمران کیلئے کوئی گنجائش نہیں ۔ پیاری مقتول بیٹیو! معاف کرنا کہ ہم ایک بے رحم معاشی اورسیاسی نظام کے غلام ہیں جہاں ہم بیٹیوں کو ذبح اوربیٹوں کوخود کش بناتے ہیں ۔ اللہ ہمیں ہدایت دے ۔