کہانی ایک ڈکیتی مرڈرکی!

 کہانی ایک ڈکیتی مرڈرکی!

(دوسری قسط۔گزشتہ سے پیوستہ)
میں اپنے گزشتہ کالم میں پرتگال میں مقیم اپنے شاگرد عزیز علی سہیل ورک کے والد محترم کا ایک ڈکیتی میں مرڈر کا واقعہ عرض کررہا تھا، پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں اب روزانہ سینکڑوں ڈکیتیاں ہوتی ہیں جن میں اکثر قتل بھی ہوتے ہیں اورہماری پولیس و حکمرانوں کے لیے اس طرح کے جان لیوا واقعات کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے، میں آپ کو کینیڈا کا ایک واقعہ سناتا ہوں جو مجھے ایک نفیس پولیس افسر جاوید نور مرحوم نے سنایا تھا، وہ ایک بار کسی کورس میں شرکت کے لیے ٹورنٹو کینیڈا گئے، اُسی کورس میں شرکت کے لیے سنگاپور سے ایک خاتون پولیس افسر بھی آئی ہوئی تھی، ایک روزوہ وہاں ایک سڑک سے گزررہی تھی اچانک ایک ’’آوارہ گولی‘‘ (A strag Bullet)اُس کے کندھے کو چُھوکر گزرگئی ، کندھے پر معمولی خراش آئی، وہ اِس واقعے کے خلاف وہاں کی عدالت میں چلی گئی، عدالت میں جو درخواست اُس نے دی، اُس میں لکھا ’’کینیڈا اب ایک محفوظ ملک نہیں ہے‘‘…عدالت نے دوران سماعت ایک روز کینیڈا کے وزیراعظم کو طلب کیا، اُنہوں نے عدالت میں سنگاپوری خاتون پولیس افسر سے معافی مانگی خاتون پولیس افسر نے اُنہیں معاف کردیا، وزیراعظم نے عدالت میں اُس خاتون پولیس افسر سے کہا ’’آپ کی مہربانی آپ نے مجھے معاف کردیا، مگر آپ نے اپنی درخواست میں یہ جو لکھا ہے کہ ’’کینیڈا ایک محفوظ ملک نہیں ہے‘‘ یہ الفاظ اپنی درخواست میں سے حذف کردیں، کیونکہ آپ کے یہ الفاظ ساری زندگی مجھے شرمندہ کرتے رہیں گے‘‘… خاتون نے اپنی پوری درخواست ہی واپس لے لی، …ملک اور معاشرے ایسے ہی ترقی نہیں کرتے، ہمارے حکمران صرف باتیں کرتے ہیں، اور باتیں بھی ایسی کرتے ہیں مہذب دنیا اُن پر ہنستی ہے، ہمارے اکثر پولیس افسران فیلڈ میں کسی اہم عہدے پر دوران تعیناتی صرف ایک ہی کوشش کرتے ہیں کوئی ایسا ایشو نہ بنے جس سے  اُن کی ٹرانسفر ہوجائے، یا حکمران اُن سے ناراض ہو جائیں، کرائم کا بڑھنا حکمرانوں کے نزدیک چونکہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا سواکثر پولیس افسران کو اس کی پرواہی نہیں ہوتی کرائمز کس قدرتیزی سے بڑھ رہے ہیں، البتہ پچھلے دنوں لاہور میں ایک ایسا پولیس افسر (احسن یونس) بطور ڈی آئی جی آپریشن چند روز کے لیے تعینات ہوا جس نے ساری توجہ بڑھتے ہوئے کرائمز کی طرف دی، کب اُس کا تبادلہ ہوتا ہے؟ اُسے اِس کی پرواہی نہیں تھی، مجھے نہیں معلوم اُس کی لاہور میں چند روزہ تعیناتی سے کرائمز میں کمی واقع ہوئی یا نہیں ؟ مگر اِس کے لیے کوشش اُس نے کی، … جہاں تک علی سہیل ورک کے والد محترم کے ایک ڈکیتی میں مرڈر کا تعلق ہے، جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا یہ واقعہ ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی میں ہوا، زخمی کو اُٹھا کر سول ہسپتال گوجرانوالہ لے جایا گیا جہاں کئی گھنٹے اُن کا آپریشن ہوتا رہا، مجھے جب اِس کی اطلاع ملی، میں اپنے عزیز ترین بھائیوں طارق عباس قریشی اور اورنگ زیب جٹھول کو لے کر فوری طورپر سول ہسپتال گوجرانوالہ پہنچا، طارق عباس قریشی پچھلے برس یہاں بطور آرپی او تعینات تھے ،اِس عہدے پر عوام میں جتنی مقبولیت وپذیرائی اُنہوں نے حاصل کی شاید ہی اورکسی افسر نے کی ہوگی، ممتاز مؤرخ، دانشور اور کالم نگارڈاکٹر صفدر محمود نے اُن کے بارے میں کہا تھا ’’ ہمارے سبھی افسران اگر ایسے انسان دوست ہوتے پاکستان امن وسکون کا گہوارا ہوتا، …ہم جیسے ہی سول ہسپتال گوجرانوالہ پہنچے علی سہیل ورک کے والدہسپتال کے ایک پرائیویٹ کمرے میں شفٹ ہوچکے تھے، ہسپتال کے ایم ایس بھی وہاں موجود تھے، وہ ہمیں ڈاکٹروں کی اُس ٹیم کے پاس لے گئے جنہوں نے آپریشن کیا تھا، یہ ٹیم بہت مطمئن تھی، اُنہوں نے بتایا یہ ایک مشکل سرجری تھی، گولی بڑی اور چھوٹی آنت کو چیرتی ہوئی ہپ جائنٹ سے نکل گئی، اُن کا خیال تھا کچھ روز بعداگر ضرورت محسوس ہوئی تو ’’ہپ جائنٹ‘‘ کا الگ سے آپریشن کرنا پڑے گا، ہم جب اِس کا ایکسرے لے کر ملک کے ممتاز ترین آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر عامر عزیز صاحب کے پاس گئے، ایکسرے دیکھنے کے بعد اُنہوں نے فرمایا ’’ یہ ہڈی خودبخود جُڑ جائے گی اِس کے آپریشن کی ضرورت ہی نہیں ہے‘‘۔عامر عزیز صاحب کا شمار اُن فرشتہ سیرت مسیحائوں میں ہوتا ہے لالچ جنہیں چُھوکر نہیں گزری، پرائیویٹ پریکٹس سے جو کچھ وہ کماتے ہیں اُس کا زیادہ ترحصہ وہ فلاحی کاموں پر خرچ کردیتے ہیں، سادہ زندگی گزارتے ہیں، کسی مریض کا مرض دیکھ کر آپریشن کی اگر ضرورت محسوس ہو تو کرتے ہیں ’’جیب‘‘ دیکھ کر نہیں کرتے، میں نے کئی ایسے مریض دیکھے جنہیں بڑے بڑے ڈاکٹروں عرف ’’ڈاکوئوں‘‘ نے فوری طورپر آپریشن کروانے کے مشورے دیئے اور اِس کے لیے اپنی ’’قیمتی خدمات‘‘ بھی پیش کیں، وہ جب پروفیسر عامر عزیز صاحب سے ملے اُنہوں نے اُنہیں صرف چند روز کی فزیو تھراپی‘‘ سے ٹھیک کردیا، …جس روز کامونکی میں یہ ’’واردات‘‘ ہوئی علی سہیل ورک اُس سے ایک روز پہلے ہی پُرتگال واپس گیا تھا، اُسی فلائٹ سے اُسے لاہور واپس آنا پڑا۔ وہ ایئرپورٹ سے سیدھا سول ہسپتال گوجرانوالہ پہنچا، ہمارے ’’سرکاری ہسپتال‘‘ اپنی ’’کارکردگی‘‘ کے حوالے سے جتنے بدنام ہیں، اور اب تو بہت ہی زیادہ بدنام ہیں اُس کے پیش نظر اُس نے فیصلہ کیا اپنے والد محترم کو لاہور کے کسی اعلیٰ ترین ہسپتال میں داخل کروائے تاکہ ریکوری جلدازجلد ممکن ہوسکے، چونکہ اُس کا بہت عرصہ یورپ میں گزرا چنانچہ اُس کا کم ازکم یہ خیال بالکل درست تھاہمارے اکثر سرکاری ہسپتالوں  میں صفائی بہت ناقص ہوتی ہے، وارڈوں میں اتنی نرسیں اور ڈاکٹرز نہیں ہوتے جتنی بلیاں اور چوہے ہوتے ہیں، کبھی کبھی تو کُتے بھی ہوتے ہیں جن سے ڈاکٹرز یہ کہہ رہے ہوتے ہیں ’’یہاں ہم رہیں گے یا تم‘‘…بہرحال ہم اپنے مریض کو سول ہسپتال گوجرانوالہ سے لے کر سرجی مڈہسپتال لاہور لے آئے۔ سرجی مڈ کے انتظامی امور جب سے ہماری پیاری بھابی بیگم عامر عزیز کے سپرد ہوئے ہیں بہت سے شعبوں میں بہت بہتری آئی ہے، خصوصاً صفائی دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے یہ گورے ملک کا کوئی ہسپتال ہے جہاں جتنا خیال مریض کا رکھا جاتا ہے اُس سے زیادہ صفائی کا رکھا جاتا ہے، …سرجی مڈہسپتال میں سرجن مجید چودھری نے اُن کا علاج شروع کردیا، اگلے دوچار روز میں اُن کی طبیعت میں بہتری آنے لگی۔ بیرونی زخم بھی بھرنے لگے، واردات کی وجہ سے، اورآپریشن کی وجہ سے مریض پر جوڈیپریشن طاری تھا اُس میں بھی کمی واقع ہونے لگی، علی سہیل ورک بار بار اِس اطمینان کا اظہار کررہا تھا کہ وہ اپنے والد کو بروقت لاہور لے آیاورنہ گوجرانوالہ کے سرکاری ہسپتال میں اللہ جانے کیا سلوک اُن سے کیا جاتا۔ مریض کے تمام اعضاء معمول کے مطابق کام کررہے تھے، ماضی میں اُن کی ہارٹ سرجری بھی ہوئی تھی اس کے باوجود دِل بالکل ٹھیک کام کررہا تھا، وہ شوگر کے پرانے مریض تھے، اِس کے باوجود گردے اور جگر بھی ٹھیک کام کررہے تھے (جاری ہے)