افغانستان کے ساتھ تعلقات

افغانستان کے ساتھ تعلقات

قا رئین کرام، اپنے پچھلے کا لم میں جو میں نے ا س امر پہ افسوس کا اظہا ر کیا تھا کہ پا کستان کی لا کھ کوششوں کے باوجود افغا نستان کے ساتھ تعلقا ت برا بر ی کی سطح پہ نہ آ سکے۔ اور اب یہ حا لیہ وا قع ہے کہ  پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر پر افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان خاردار تارکے تنازع پر کلی شیخ لعل محمد اورسوی کاریز میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔میڈیا کے مطابق ان جھڑپوں کے دوران بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیاہے۔ آئی ایس پی آر کے حوالے سے میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ تین روز قبل افغان سرحدی فورسز نے بلوچستان کے علاقے چمن میں شہری آبادی پر توپ خانے اورمارٹر سمیت بھاری ہتھیاروں سے بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ کی۔ فائرنگ کے نتیجے میں 6پاکستانی شہری شہیدہو گئے جب کہ 17افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان کی جارحیت کا بھر پور جواب دیا تاہم افغانستان کے علاقے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیاہے لیکن افغان فورسز نے چمن میں شہری آبادی پر گولے برسائے جس سے شہادتیں ہوئی ہیں اور علاقے میں سوگ کا سماں ہے۔ مارٹر گولے گرنے سے جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہریوں کے مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں، کئی دکانیں تباہ ہو گئیں جب کہ کپڑوں سے لدے ہوئے ایک ٹرالر میں گو لے گرنے سے آگ بھڑک اٹھی اورسارا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ میڈیا کے مطابق سرحد پار سے افغان حکام کی جانب سے موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ جھڑپوں میں ایک طالبان فوجی مارا گیا جب کہ 10 کے زخمی ہوئے ہیں،کہا جا رہا ہے کہ پاک افغان بارڈر پر صورتحال اب بھی شدید کشیدہ ہے۔ سیکیورٹی ذرایع کے مطابق دو ماہ قبل اکتوبر کے مہینے میں بھی پاک افغان باڈر پر افغانستان اور پاکستان کی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ میڈیا نے ذرایع کے حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ افغانستان سے کچھ افراد نامکمل دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں داخل ہونا چاہتے تھے  پاکستانی اہلکاروں کے روکنے پر افغانستان کی فورسز مشتعل ہوگئیں اور انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر کابل میں افغان حکام سے رابطہ کیا ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ میڈیا میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے سرحد پر لگی باڑ کو کاٹنے کی کوشش کی گئی تھی جسکی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سرحد پر ہونے والے واقعے کے بارے میں متعلقہ حکام تفتیش کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا۔ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے مزید تناؤ سے اجتناب کیا جائے۔ افغانستان کی ہمیشہ پالیسی یہی رہی ہے کہ جو بھی مسئلہ ہو وہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان پرامن طریقے سے اور سفارتی سطح پر حل کیا جائے۔پاکستان کے ترجمان دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ افسوسناک واقعات دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے مطابق نہیں ہے۔ افغان حکام کو کہا ہے،ایسے واقعات کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ سرحد پر شہریوں کی حفاظت دونوں فریقوں کی 
ذمے داری ہے، پاک افغان حکام صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کے لیے رابطے میں ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحد پر بلااشتعال فائرنگ کے واقعات روکے جائیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ روز بلوچستان میں چمن بارڈر پر افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلا اشتعال 
گولہ باری اور فائرنگ سے کئی پاکستانیوں کی شہادت اور ایک درجن سے زائد شہریوں کے زخمی ہونے کے واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ افغان عبوری حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعدپاکستان میں ایک مخصوص لابی عوام کو یہ تاثر دے رہی تھی کہ اب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورت حال بہتر ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے لیے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ طالبان سکیورٹی اہلکار کئی بار پاک افغان سرحد پر لگی باڑ کو کاٹنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردوں کے حملے بھی بدستور جاری ہیں۔افغانستان کی طالبان حکومت اس حوالے سے کوئی عملی اور ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کر سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت ابھی تک نہ تو اقوام عالم کی حمایت حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی افغانستان میں پوری طرح امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ افغانستان میں داعش اور القاعدہ ابھی تک فعال ہیں جب کہ پاکستانی طالبان بھی افغانستان کی سرزمین پر آزادانہ نقل وحرکت کر رہے ہیں اور وہاں سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت پورے افغانستان پراپنی رٹ قائم نہیں کر سکی۔ بظاہر افغان طالبان کاپورے افغانستان پر کنٹرول نظر آتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغان عبوری حکومت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن آپریشن کرنے میں بھی تاحال ناکام نظر آتی ہے۔افغان عبوری حکومت کے بینر تلے مقامی طالبان کمانڈر بھی من مانی کرتے نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں باقاعدہ جوڈیشل سسٹم کی تشکیل نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی جدید طرز کا انتظامی ڈھانچہ تیار ہو سکا ہے۔ ملک کا مالیاتی نظام بھی غیرفعال ہے  اس لیے وہاں سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے  ایسے حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ افغانستان عبوری حکومت سب سے پہلے افغانستان پر اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کرنے کا عملی ثبوت فراہم کرے۔ وہاں موجود دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کرے اس معاملے میں طالبان اور پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے تو باقاعدہ طور پر افغان حکومت پاکستان حکومت کو درخواست کرے افغانستان کے تمام نسلی اور ثقافتی گروہوں کو حکومت نے بھرپور نمایندگی دے تاکہ افغانستان میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے۔ افغان عبوری حکومت کے جو بھی مسائل ہیں اس کے بارے میں تو عبوری حکومت کے اعلیٰ عہدیداران ہی وضاحت کر سکتے ہیں تاہم بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ طالبان کے اپنے اندر بھی مختلف ایشوز کے حوالے سے یکسوئی یا نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اس وجہ سے عبوری حکومتی ڈھانچہ پوری طرح فعال نظر نہیں آتا خصوصاً انٹرنل سکیورٹی کے حوالے سے صورت حال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت کے کمپاؤنڈ میں دہشت گردوں نے پاکستان مشن ہیڈ پر قاتلانہ حملہ کرکے انھیں زخمی کیاتھا ابھی تک اس واقعے کے حقائق منظرعام پر نہیں آ سکے۔ افغانستان کو ایک ذمے دار ریاست اور افغان حکومت کو ایک ذمے دار حکومت کا ثبوت دینا ہو گا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ساری دنیا غلط ہو اور صرف آپ درست ہوں۔ صدیوں سے یہ اصول چلا آ رہا ہے کہ اقوام عالم میں اپنی جگہ بنانے کے لیے دوسروں کی سرحدوں کا احترام کیا جاتا ہے کوئی ریاست اقوام عالم کا اعتماد حاصل کیے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہر ملک کا اپنا نظام حکومت ہوتا ہے اپنا آئین و قانون ہوتا ہے اور اپنا کلچر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملک دوسرے ملکوں کے نظام حکومت آئین و قوانین اور کلچر کو غلط قرار دے اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے ضابطوں اور کلچر کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے گا تو اسے سوائے مخالفت اور ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔افغانستان کی عبوری حکومت کے کرتا دھرتاؤ ں کو ڈسپلنڈ ریاستوں کے معیارات کا پابند بننا ہو گا۔