جہانگیر ترین گروپ

Naveed Chaudhry, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ایک پیج کی حکومت ہونے کے سبب وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار کو ابھی تک کوئی سنجیدہ چیلنج درپیش نہیں۔ اس لئے جو بھی ان کی مخالفت کرے گا اسے حکومت کے سرپرستوں کے عتاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہے۔ یہ کوئی راز نہیں، اہم وفاقی وزرا آئے دن بیانات داغتے رہتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ حکومت کے ساتھ ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید تو اس سے بھی ایک قدم آگے چلے گئے اور کہہ دیا کہ پاکستان میں دو ہی چیزیں قومی ہیں ایک پاک فوج اور دوسری پی ٹی آئی۔ دنیا بھر میں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ موجودہ حکومتی نظام اداروں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ تو ہے زمینی حقیقت اور اس سے ہٹ کر جب کبھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ موجودہ سسٹم کو کوئی خطرہ ہے تواس کے مخالفین  ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ الیکشن کے فوری بعد مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اسمبلیوں میں نہ جانے کی تجویز اور پی ڈی ایم ٹوٹنے سے پہلے اس کے جلسے اور بیانیہ واقعی خطرہ تھے مگر منصوبہ سازوں کی“ کرامات“ اور کچھ اپنوں کی بے وفائی کے سبب کھیل بیچ میں ہی رک گیا۔ایسے میں جہانگیر ترین گروپ کسی ممکنہ تبدیلی کے لئے کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ چند ہفتے قبل ایک دعوت میں جہانگیر ترین کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کا موقع ملا تو لگا کہ ان کا دل اب تک پی ٹی آئی میں اٹکا ہوا ہے۔ شوگر کنگ کو اپنے اور گھر والوں کے خلاف مقدمات کے حوالے سے مکمل طور پر بے فکر پایا۔ ہاں مگر جب وہ اپنے اور اپنے گروپ کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو چہرے سے غیر یقینی جھلکنا شروع ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے درمیان سب معاملات بالکل ٹھیک بلکہ خوشگوار تھے مگر کان بھرنے والے چند افراد کے ٹولے نے غلط فہمیاں پیدا کیں۔ ایک حقیقت پسند سیاستدان کی طرح وہ اعتراف کرتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو خصوصاً پنجاب میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا (اگرچہ یہ تب ہی ممکن ہے جب تمام سیاسی جماعتوں کو آزادی کے ساتھ الیکشن لڑنے کیلئے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں)۔ ایک بڑے صنعت کار کے طور پر ان کی باتوں سے ہرگز ایسا نہیں لگا کہ مستقبل قریب میں ملکی معیشت بہتر ہونے کا کوئی امکان ہے۔ جہانگیر ترین کی اس وقت بھی اولین ترجیح یہی لگتی ہے کہ پی ٹی آئی والے پرانے اور سہانے دن واپس لوٹ آئیں۔ ان کا اب بھی یہی خیال ہے اگر عمران خان کے ساتھ فاصلے مٹ جائیں تو دونوں مل کر نہ صرف حکومت کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں بلکہ پارٹی کو بھی بہت مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ وہ پی ٹی آئی کی موجودہ تنظیم کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک الگ دھڑا بنانے کے باوجود وہ خود کو ابھی تک پی ٹی آئی کا حصہ ہی تصور کرتے ہیں۔ دوسری جانب ان کی پارٹی کے کئی وزرا سرعام کہہ رہے ہیں کہ ترین صاحب پارٹی میں اب کہیں نہیں۔ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ سے اپنی تاحیات نااہلی پر سخت گلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا کیس نواز شریف سے بالکل الگ ہے۔اس کے باوجود مجھے نہ صرف نااہل کیا گیا بلکہ نظر ثانی کی درخواست میں بھی یہی فیصلہ برقرار رکھ کر مہر لگا دی گئی۔جب ان سے کہا گیا کہ اس طرح کے فیصلے سیاسی صورتحال بدلنے کے ساتھ تبدیل ہونے کی تاریخ موجود ہے تو انہوں نے کہا بالکل ایسا ہی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریور کی حکومتی درخواست (نظر ثانی پر پھر نظر ثانی) جس کی مثال بھارتی سپریم کورٹ نے قائم کی ہے یہاں بھی قبول ہوگئی تو ان کی نااہلی ختم ہونے کا چانس بن سکتا ہے۔ اسی نشست میں ایک موقع پر یہ سوال بھی زیر بحث آیا کہ کیا قبل از وقت عام انتخابات ممکن ہیں؟ وہاں موجود ایک وزیر نے جو وزیر اعظم سے تازہ تازہ ملاقات کرکے آئے تھے، دلچسپ تبصرہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو پروٹوکول کا نشہ لگ چکا ہے، وہ آخری دن آخری منٹ بلکہ آخری سیکنڈ تک یہ انجوائے منٹ کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے۔جہانگیر ترین گروپ پنجاب حکومت کے حوالے سے سنگین تشویش کا اظہار نہیں کرتا بلکہ کرپشن کے الزامات بھی لگاتا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت جاتے ہی نہ صرف بعض اہم وفاقی عہدیدار اور افسر بلکہ پنجاب کے اعلیٰ حکام بھی گرفتار ہوکر جیلوں میں جائیں گے۔جہانگیر ترین کو اس امر 
میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان کے گروپ کے ارکان کی تعداد موجودہ گنتی سے کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ صرف ارکان اسمبلی ہی نہیں بلکہ بعض وزرا بھی بھرے بیٹھے ہیں۔ ان میں کپتان کی پالیسیوں اور کارکردگی کے بارے میں اپنی ناپسند گی کا اظہار عوام کے سامنے کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ بظاہر مسئلہ یہی ہے کہ کسی کو اگلی منزل کا اندازہ نہیں۔ خود جہانگیر ترین بھی تحریک انصاف سے ہٹ کر سوچتے ہیں تو تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک تو ان کو اپنے محدودات کا علم ہو اور دوسرے یہ کہ آگے کوئی اچھی آفر بھی موجود نہ ہو۔ اسی نشست کے دوران ایک موقع پر جہانگیر ترین نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اہم سیاستدان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لئے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ انہوں نے نام لئے بغیر کہا کہ ایک بڑے سیاستدان چند روز میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں گے۔ کھانے اور غیر رسمی گفتگو کی یہ نشست آصف زرداری کے حالیہ ناکام دورہ لاہور سے قبل ہوئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ چلا کہ ترین نے جس بڑی سیاسی شخصیت کی پی پی میں شمولیت کی بات کی تھی وہ سردار ذوالفقار کھوسہ تھے۔جو سیاسی اور جماعتی طور پر مکمل فارغ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ کھوسہ ہی نہیں آصف زرداری کے اس دورہ لاہور کے دوران سابق وزیر اعلیٰ منظور وٹو نے ملاقات کرنے کے باوجود معذرت کرلی۔ مقامی سطح کے ایک سیاستدان اعجاز ڈیال نے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ زیر عتاب مسلم لیگ ن کے حوالے سے بھی اس گروپ کی راہیں کشادہ نہیں۔ اس وقت اس بات کی تصدیق بھی ہوگئی جب جہانگیر ترین نے اپنے شوگر ملز کے کیس کے ساتھ شریف خاندان کی شوگر ملز کے کیسوں کا حوالہ دیتے ہوئے قدرے خفگی سے کہا میرا کیس بالکل مختلف ہے جبکہ شہباز شریف کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں۔ اس پر بعض شرکا کو مشرف دور یاد آگیا جب جہانگیر ترین بڑے اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ جتنا بجٹ چودھری پرویز الٰہی کو بطور وزیر اعلیٰ ملا اتنا ہی شہباز شریف کو ملا ہوتا تو صوبے کی قسمت بدل جاتی۔ بہر حال یہ ماضی کی باتیں ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ ترین گروپ آگے کیا کرتا ہے۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی منتقم المزاجی کے سبب اگلے عام انتخابات میں اس گروپ کے کسی ممبر کو ٹکٹ نہیں دینگے۔سینئر سیاستدان اسحاق خاکوانی نے شرکا کو بتایا کہ کسی ایک پارٹی کو دوسری بار پانچ سال کے منتخب کرنے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ کے پی کے میں صوبائی حکومتوں کے حوالے سے بھی یہی ریکارڈ تھا جسے پی ٹی آئی نے توڑ دیا۔ جہاں تک وفاقی حکومت کی بات ہے تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مخالفین انتخابی عمل کے بعد قائم کی جانے والی اس حکومت کو غیر جمہوری اور ہائبرڈ قرار دیتے ہیں۔ اس بات کو سچ مان لیا جائے تو ایسی حکومتوں کو دس سال مل ہی جاتے ہیں۔ ق لیگ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پارٹی ہوسکتی تھی مگر حالات پلٹا کھا گئے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت، ججز بحالی تحریک اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنرل مشرف پاک فوج کی کمانڈ چھوڑ چکے تھے۔2008 کے عام انتخابات میں ق لیگ کو جتوانے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ترجیحات اپنے سابق باس سے مختلف تھیں۔ پولنگ ڈے سے چند روز قبل خفیہ ایجنسیوں سے انتخابی عمل میں کسی صورت مداخلت نہ کرنے کے احکامات ملے۔ عمل درآمد ہوتے ہی مشرف اور ق لیگ ہمیشہ کے لئے فارغ ہوگئے۔ سو ممکن ہے کہ ق لیگ کے ذریعے جو تجربہ کامیاب نہ بنایا جاسکا، اسے پی ٹی آئی کے ذریعے پھر سے آزمانے کی کوشش کی جائے۔ بہر حال اپنی رائے دینے کے بعد اسحاق خاکوانی نے کہا ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہئے کہ سیاست اور انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو روکا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس چند ایسی تجاویز ہیں جن پر عمل کرلیا جائے تو ایجنسیوں کی الیکشن میں مداخلت کو روکا جاسکتا ہے۔ انہوں نے شرکا سے کہا وہ اس حوالے سے جلد اپنے گھر پر ایک نشست رکھیں گے۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ ساتھ ہی مزیدار کھانا بھی ہونا چاہئے جس پر محفل میں قہقہے گونجنے لگے۔ یوں یہ محفل اختتام کو پہنچی۔ یہ تو واضح ہوگیا کہ جہانگیر ترین اپنے گروپ کو قائم رکھتے ہوئے رابطے بڑھانے کے مشن پر ہیں۔ آئندہ کے سیاسی منظر نامے میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے سے پہلے انہیں اس بات کا صحیح طریقے سے علم ہونا چاہئے کہ آخر وہ تاحیات نااہل کیوں قرار پائے؟ ان کی دولت کا بڑا حصہ صرف عمران خان کی ذات اور پی ٹی آئی کیلئے ہی استعمال نہیں ہوتا رہا بلکہ“ قومی مفاد“ کے تحت ہر کام کرنے کے لئے ثواب سمجھ کر مال لٹاتے رہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ جہانگیر ترین کو اس لئے نااہل کیا گیا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے توازن پیدا کیا جائے غیر حقیقی ہے۔ یہ بیلنس کس کو دکھانا تھا، عالمی اسٹیبلشمنٹ تو پہلے ہی سے نواز شریف اور ان کی حکومت کے درپے تھی۔ یہاں فیصل واوڈا جیسا غیر سنجیدہ اور بے پر کی ہانکے والا سو فیصد ٹھوس کیس میں نااہل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پی ٹی آئی بنانے سے لے کر کے پی کے کی پہلی حکومت چلانے تک جہانگیر ترین نے مرکزی کردار ادا کیا۔ وزیر اعظم عمران کے اردگرد موجود وزرا، غیر منتخب مشیروں اور سرکاری افسروں کا ٹولہ جہانگیر ترین کو ایک حد سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ خود وزیر اعظم عمران خان کی پوزیشن بھی یہی ہے۔ جہانگیر ترین نے جانے انجانے میں جن کو ناراض کیا ہے۔ان کو منانے تک کوئی بڑا رول نہیں مل سکتا۔ ایک اور اہم بات ریحام خان کا اپنی کتاب میں یہ انکشاف ہے کہ ان کی عمران خان سے طلاق کرانے میں جہانگیر ترین نے بنیادی کردار ادا کیا۔ آئندہ جب کسی کو ایسا شک پڑ جائے گا تو وہ اسے اپنے گھر کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ سو پی ٹی آئی سے جہانگیر ترین کا قصہ تمام ہی سمجھا جائے۔ ان کے گروپ کو الگ سے کوئی رول دینا ہے یا پھر پی ٹی آئی کی ٹکٹیں دلوانی ہیں۔ اس کا حتمی فیصلہ منصوبہ ساز کریں گے۔ جہانگیر ترین کو موجودہ تنخواہ پر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ جہاں موثر عوامی حمایت رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہ ہو وہاں کوئی گروپ کیا کرلے گا۔ بہرحال اتنا ضرور ہے اگر کسی موقع پر موجودہ حکومت کے لئے حقیقی خطرات پیدا ہوئے تو جہانگیر ترین اور ان کا گروپ واقعی اہمیت اختیار کر جائے گا۔