وزیراعظم عمران خان کا امام بخاریؒ کے مزار کا دورہ

وزیراعظم عمران خان کا امام بخاریؒ کے مزار کا دورہ
کیپشن: وزیراعظم عمران خان کا امام بخاریؒ کا دورہ
سورس: PHOTO: Twitter

ثمرقند : وزیر اعظم عمران خان نے ازبکستان کے وزیراعظم کے ساتھ  امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کا دورہ کیا ۔وزیراعظم کو حضرت امام بخاریؒ کے دورہ کی توسیع کے بارے میں بریف کیا گیا ۔

ابو عبداﷲ محمد (امام بخاری ) بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی۔ امام بخاری  کے والد حضرت اسماعیل  کو جلیل القدر علمااور امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی شاگردی کا بھی شرف حاصل تھا۔

امام بخاریؒ 13 شوال 194ھ (20 جولائی 810) کو بعد نمازِ جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری  ابھی کم سن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کیلئے صرف والدہ کاہی سہارا باقی رہ گیا۔ شفیق باپ کے ا ٹھ جانے کے بعد ماں نے امام بخاری  کی پرورش شروع کی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ امام بخاری  نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا۔

سبحان اﷲ حضرت احمد بن حفص  نے کہا کہ میں حضرت اسمٰعیل  کے پاس ’’ ان کی موت کے وقت‘‘ گیا جو امام بخاری کے والد تھے ا نہوں نے کہا میں نہیں سمجھتا میرے مال میں کوئی روپیہ حرام یا شبہہ کا ہو (یعنی آپؒ کی پرورش حلال مال سے ہوئی) حضرت وراقہ  فرماتے ہیں کہ

امام بخاری  کو اپنے باپ کے ترکہ میں سے بہت مال ملا تھا۔ غنجار نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ امام بخاری  کے پاس کچھ مالِ تجارت آیا۔ تاجروں نے پانچ ہزار کے نفع سے اسے مانگا۔ پھر دو سرے دن کچھ اور تاجروں نے دس ہزار کے نفع کی پیش کش کی تو امام صاحب نے فرمایا: ’’میں نے پہلے تاجروں کو دینے کی نیت کر لی تھی‘‘۔ آخر اُنہی کو دے دیا اور مزید پانچ ہزار کا نفع چھوڑ دیا۔

امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کو اپنے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی۔ آپؒ اس سے تجارت کیا کرتے تھے۔ اس آسودہ حالی سے آپؒ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا جو کچھ آمدنی ہوتی طلب علم کیلئے صرف کرتے۔ غریب اور نادار طلبا کی امداد کرتے، غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ ہر قسم کے معاملات میں آپ رحمہ اللہ علیہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن محمد صیارفی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امام بخاری کے ساتھ ان کے مکان میں بیٹھا تھا اتنے میں ان کی لونڈی آئی اور اندرجانے لگی۔سامنے ایک دوات (انک کی بوتل) رکھی تھی اس کو ٹھوکر لگی۔ امام بخاری ؒنے کہا تم کیسے چلتی ہو وہ بولی جب راستہ نہ ہو تو کیسے چلوں؟ یہ سن کر امام بخاری نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا: ’’جا میں نے تجھ کو آزاد کر دیا ‘‘ لوگوں نے کہا اے ابو عبداﷲ! اس لونڈی نے تو آپ  کو غصّہ دلایا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے اس کام سے اپنے نفس کو ر ا ضی کر لیا ہے۔

حضرت وراقہ  فرماتے ہیں کہ امام بخاری بہت کم خوراک لیتے تھے، طالب علموں کے ساتھ بہت احسان کرتے اور نہایت سخی تھے۔ ایک دفعہ امام بخاری بیمار ہوئے۔ ان کا قارورہ (پیشاب کی رپورٹ) طبیبوں کو چیک کرایا گیا تو ا نہوں نے کہا یہ قارورہ تو اس شخص کا ہے جس نے کبھی سالن نہ کھایا ہو۔ پھر امام بخاری  نے ان کی تصدیق کی اور کہا کہ چالیس سال سے میں نے سالن نہیں کھایا (یعنی روکھی روٹی پر قناعت کی) طبیبوں نے کہا اب آپؒ کی بیماری کا علاج یہ ہے کہ سالن کھایا کریں۔

امام بخاری  نے قبول نہ فرمایا۔ بڑے اصرار سے یہ قبول کیا کہ روٹی کے ساتھ کچھ کھجور کھا لیا کریں گے۔ محمد بن منصور فرماتے ہیں ہم ابو عبداﷲ بخاری  کی مجلس میں تھے۔ ایک شخص نے آپؒ کی داڑھی میں سے کچھ کچرا نکالا اور زمین پر ڈال دیا۔ امام بخاری نے لوگوں کو جب غافل پایا تو اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر نکلے تو اس کو پھینک دیا ۔

امام بخاری  کو اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپؒ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن (عبارت) اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری  حدیث سنتے اور کہتے، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری  نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ 100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔

امام بخاری  پہلے شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے پہلی حدیث یوں سنائی تھی اور پھر صحیح حدیث سنائی دو سری حدیث کے بارے میں فرمایا کہ تم نے یہ حدیث اس طرح سنائی تھی جب کہ صحیح یہ ہے اور پھر صحیح حدیث سنائی، مختصر یہ کہ امام بخاری  نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردّو بدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں۔

آپؒ کی سب سے بلند پایہ تصنیف صحیح بخاری ہے۔ آپ  نے بخاری کی ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، زکاوت اور حفظ ہی کا زور خرچ نہیں کیا بلکہ خلوص، دیانت، تقویٰ اور طہارت کے بھی آخری مرحلے ختم کر ڈالے اور اس شان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے، دو رکعت نماز استخارہ پڑھتے بارگاہِ ربّ العزت میں سجدہ ریز ہوتے ا ور اس کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے۔ اس سخت ترین محنت اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیورِ تکمیل سے آراستہ ہوئی۔