برسے برسات اور خوب برسے…!

برسے برسات اور خوب برسے…!

اس سال ملک بھر میں اس موسم برسات میں بارشیں خوب برس رہی ہیں۔اب تک مون سون بارشوں کے دو بڑے سلسلے (Spell)  برس چکے ہیں تو تیسرا بھی زو ر شور کے ساتھ اس طرح اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے کہ اس کے ایک آدھ دن بعد مون سون بارشوں کا چوتھا سلسلہ جو ملک میں داخل ہو چکا ہے برسنا شروع ہو جائے گا۔ مون سون بارشوں کے ان سلسلوں کی تیز ، موسلا دھار اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں بلا شبہ ملک میں جہاں پانی کی قلت میں کمی اور دریائوں ، ندی نالوں، نہروں اور راج باہوںمیں پانی کے بھائو میں اضافہ اور تیزی دیکھنے میں آرہی ہے وہاں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے تعمیر کئے گئے ڈیموں، بیراجوں، اور دیگر ریزروائیر میں ذخیرہ شدہ پانی کی مقدار میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال ملک بھر میں پانی کی قلت میں کمی اور ضرورت کے مطابق فصلوں کے لئے پانی کی دستیابی اور منگلا اور تربیلا جیسے ڈیموں میں گنجائش کے مطابق سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے ممد و معاون ثابت ہو رہی ہے اور آئندہ بھی یقینا ہو گی لیکن ان تیز طوفانی اور موسلادھار بارشوں کا ایک دوسراپہلو بھی ہے کہ ان کی وجہ سے نہ صرف قیمتی انسانی جانوں کا زیاں سامنے آیا ہے بلکہ دیگر جانی ، مالی اور انفرا سٹرکچر کو پہنچنے والے بھاری نقصانات بھی سامنے آئے ہیں اور آرہے ہیں۔ بلوچستان کے کوہ سلیمان اور کوہ کیرتھار کے پہاڑی سلسلوں کے ندی نالوں میں غیر معمولی سیلابی کیفیت کی وجہ سے سڑکوں ، شاہراہوں، ریلوے لائنوں، پلوں، کچے پکے زمینی راستوں اور مزروعہ زمینوں ، کھیتوں اور کاشت کی گئی فصلوں کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ ملک کے جنوبی حصوں میں کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں آباد بستیاں ، شہر ، قصبے اور دیہات خاص طور پر ان بارشوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا نشانہ بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے پریشان کن اور تشویشنات ہے کہ تیز طوفانی بارشوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے بھاری جانی اور مالی نقصانات کا مداوا آسان نہیں۔ اس کے ساتھ جب کراچی جیسے گنجان اور کروڑوں کی آبادی پر مشتمل شہر میں بارشی اور سیلابی پانی کی نکاسی کے معقول انتظامات موجود نہ  ہوں یا کئے گئے نہ ہوں تو پھر صورتحال اور بھی پریشان کن ہو جاتی ہے۔ خیر یہ معاملات کب سے چلے آرہے ہیں اور نہ جانے کب تک ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ فی الوقت ہمارے لئے یہ پہلو اطمینان کا باعث ہو سکتا ہے کہ ڈیموں ، بیراجوں اور دیگر ریزروائر میں پانی خوب ذخیرہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ دریائوں ، ندی نالوں اور نہروں میں پانی کے بہائو میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور دریا اور ندی نالے کناروں تک لبا لب بھرے ہوئے بہہ رہے ہیں۔ 
دریائوں میں پانی کے بہائو میں اضافے اور ان کے کناروں تک لبا لب بھرے ہونے سے مجھے دریائے سندھ کے ایک معاون دریا "دریائے سواں " کا ٰخیال آرہا ہے جو میرے آبائی قصبہ چونترہ کے شمال مشرق ، شمال ، مغرب اور کسی حد تک جنوب مغرب کی سمتوں میں بہتا ہواگزرتا ہے۔ دریائے سواں کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے اور یہ وہی مقام ہے جہاں کالا باغ کے نام سے تعمیر کئے جانے والے منصوبے کو کتنے عشروں سے ہم نے اس حد تک متنازع بنا رکھا ہے کہ اب اس کا اور اس کی تعمیر کا نام لینا ایک گالی بن چکا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ کیا تھا، یا کیا ہے؟ اور اس کی تعمیر سے ہم کتنے فوائد سمیٹ سکتے تھے یا اب بھی اسے تعمیر کر کے قومی اور ملکی سطح پر کتنے فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں ، کتنی سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ، کتنے ملین مکعب فٹ پانی کو سمندر میں جا کر گرنے کی بجائے ذخیرہ کر سکتے ہیں ، کتنے ملین ایکڑ زمینوں کو سیراب کر کے قومی پیدا وار میں اضافی کر سکتے ہیں اور انتہائی کم لاگت اور انتہائی کم عرصے میں اس کو تعمیر کیا جا سکتا ہے وغیرہ یہ سب باتیں اب کوئی عوامی ، ملکی اور ریاستی سطح پر سننے ، سمجھنے اور جاننے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔اس لئے کہ ہم نے منفی پراپیگنڈے کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو نوشہرہ کو ڈبونے ، دریائے سندھ کو خشک کرنے، سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور صرف پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے مترادف قرار دے کر کب سے اس کو بھول چکے ہیں۔ تاہم کالا باغ ڈیم کو تعمیر نہ کرنا ایک ایسا جرم ہے جس کا اللہ جانے ہم قومی سطح پر کتنا خمیازہ بھگتتے رہیں گے۔ 3500میگا واٹ سستی بجلی کی پیدا وار حاصل نہ کر سکنا، 6 ملین ایکڑ فٹ پانی کے ذخیرے سے محروم رہنا اور لاکھوں ایکڑ اراضی کو سیرا ب نہ کر سکنا ہمارے خمیازہ بھگتنے کے ایسے پہلو ہیں جنہیں کوئی باشعور قوم نظر انداز نہیں کر سکتی، لیکن جہاں حماقتیں ، جھوٹے نعرے اور دعوے اور الزام تراشی اور صوبائی تعصب کے ساتھ ضد اور نفرت کے رویے ہمارے قومی کلچر کا حصہ بن چکے ہوں وہاں کون ان پہلوئوں کی طرف توجہ دیتا ہے۔ 
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ذکر کو جملہ معترضہ سمجھتے ہوئے یہیں چھوڑتے ہیں۔ واپس موسم برسات  کی مون سون بارشوں اور اپنے گائوں کی تین اطراف سے بہہ کر گزرنے والے دریائے سواں کی طرف آتے ہیں۔ دریائے سواں مری کے پہاڑی سلسلے جو اصل میں کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کی ایک شاخ ہے میں سے پھوٹنے اور سارا سال بہنے والے چشموں  سے نکل کر آتا ہے۔ آگے چل کر کورنگ نالہ اس میں شامل ہو تا ہے تو سہالہ اور کہوٹہ کی طرف سے آنے والے برساتی ندی نالے بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پنڈی کے جنوب مشرق میں 5/6کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سواں کیمپ (موجودہ سواں اڈہ)کے مقام پر یہ دریا پہنچتا ہے تو پنڈی کے بیچوں بیچ بہنے والا نالہ لئی بھی اپنے گدلے پانی کے ساتھ اس میں شامل ہوکراس کا حصہ بن جاتا ہے۔یہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے تو اس میں بہنے والے پانی میں اتنا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے کہ یہ بذات خود سارا سال بہنے والے ایک درمیانی قسم کے دریا کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ برسات کے موسم میں اس میں سیلاب یا طغیانی کا آنا ایک معمول کی بات ہے تاہم کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں عام معمول سے ہٹ کر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
مری کے پہاڑی علاقوں اورکہوٹہ اور سہالہ کے نیم پہاڑی علاقوں میں جب بارش وغیرہ خوب برسے اسلام آباد اور مارگلہ کی پہاڑیوں پر بھی بادل کھل کر برسیں اور نالہ لئی میں طغیانی آجائے اور اسکے ساتھ راول ڈیم کے سپل وے کھول دیئے جائیں تو پھر دریائے سواں میں ایک بہت بڑے سیلاب یا طغیانی کا آنا لازمی ہو جاتا ہے۔ پچھلے چند عشروں کے دوران دریا ئے سواں میں ایسی ایسی طغیانیاں آئیں کہ ان سے جہاں ہماری زمینوں اور فصلوں کو بڑا نقصان پہنچا وہاں دریا کی گزرگاہ میں بھی تبدیلی آئی۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1992میں اور پھر اس کے بعد 2002میں اور پھر اس کے بعد 2010میں اور بعد کے بھی دو سال میں سواں میں شدید قسم کے سیلاب آئے جو ہمارے گائوں کی تین اطراف میں دور دور تک پھیل ہی نہ گئے بلکہ ان سے دریا کے بہائو کا راستہ بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔ اس سال مون سون بارشوں کا سلسلہ جس طرح شروع ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ دریائے سواں میں اسی طرح کے سیلاب کا منظر سامنے آسکتا ہے ۔ اللہ کریم سے خیر کی دعا مانگتے ہوئے میں اپنے بچپن اور لڑکپن میں اپنے رشتہ دار لڑکوں کے ساتھ برسات کی ان بارشوں میں نہانے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ہم لنگوٹے باندھ کر اپنے کنویں اور زمینوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ قریب ہی ہماری زمین میں تقسیم سے پہلے کا اینٹیں بنانے کا ایک بھٹہ تھا جو بند ہو چکا تھا، اب بھی کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی ہم اس کی زمین کو بھٹے والی زمین کہہ کر پکارتے ہیں جہاں پھلاہی کے درختوں کا ایک گھناجھنڈ کھڑا ہے۔ اس زمین کے ساتھ آگے کسیاں (ہموار زمین کے تنگ قطعات جن کے کم از کم دو اطراف میں اونچے ٹیلے کھڑے ہوتے ہیں) شروع ہو جاتی ہیں۔ برسات کی بارشوں میں ان کسیوں سے پانی تیز ریلے اور چھوٹے سے نالے کی صورت میں بہہ کر آیا کرتا تھا۔لنگوٹے باندھ کر پانی کے اس ریلے میں نہانا ہمیں بہت مرغوب تھا۔ اس کے علاوہ بہت عرصہ قبل اینٹیں بنانے کے لئے کھودی گئی زمین میں چھوٹے بڑے گڑھے موجود تھے جن میں بارشوں کا پانی تالاب کی صورت میں کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ ہم لڑکے بالے 3/4فٹ تک گہرے اس پانی میں خوب چھلانگیں لگایا کرتے تھے۔ ہائے وہ زمانہ نہ رہا۔ نہ وہ پیارے لوگ رہے۔ 

مصنف کے بارے میں