لیاقت علی خان اور ایوب خان پر تحقیق کی ضرورت

لیاقت علی خان اور ایوب خان پر تحقیق کی ضرورت

ہمارے سیاسی مسائل کا تعلق پاکستان کے آغاز سے جڑتا ہے۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح کا احترام اگست 1947ء کے بعد بھی عام لوگوں کے دلوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا البتہ جسمانی بیماری کے باعث اُن کی انتظامی گرفت عملاً کمزور ہوچکی تھی۔ ’’ایڈمنسٹریٹو سائنس‘‘ کا مضمون پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اگر کسی فرد کا احترام لوگوں کے دلوں میں ہو لیکن اُس کی انتظامی گرفت عملاً کمزور ہوچکی ہوتو پھر یہ ماتحتوں پر منحصر ہے کہ وہ اُس کی انتظامی گرفت کو کس حد تک قبول کرتے ہیں۔ ایسی مثالوں کے لئے اس بات کا حوالہ فی الحال نہیں دیتے کہ قائداعظمؒ نے آئین ساز اسمبلی کو جو روڈمیپ دیا تھا وہ اُن کی وفات کے فوراً بعد ہی بدل گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قائد کی وفات کے بعد لیاقت علی خان اِسی آئین ساز اسمبلی کے تین سال سے زائد تک سربراہ رہے مگر آئین نہ بنا۔ اگر قائداعظمؒ کی زندگی میں آئین بنتا تو وہ قائداعظمؒ کے روڈمیپ کے تحت مکمل جمہوری ہوتا۔ جمہوری ہونے کے نتیجے میں بنگالی ووٹر اکثریت میں ہوتے اور پاکستان کے وزیراعظم بنگالی بھی ہوتے۔ جمہوری رویئے سے اسی مسلسل دشمنی کا نتیجہ ہمیں 1971ء میں ملا۔ لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے تعلقات میں تنائو کی اصل حقیقت کو جاننے کے لئے وہ یادداشتیں پڑھنی چاہئیں جو اُن دنوں محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی ڈائری میں درج کیں۔ بعد ازاں یہی بچی کچھی کچھ تحریریں 1987ء میں قائداعظم اکیڈمی کے تحت ’’My Brother‘‘ کے نام سے مخصوص پسند کے مطابق ایڈٹ کرکے منظرِعام پر لائی گئیں۔ اصل حقیقت جاننے کے لئے اصل تحریروں 
تک پہنچنا ضروری ہے۔ مثلاً محترمہ فاطمہ جناح نے ’’میرا بھائی‘‘ میں بتایا کہ ’’لیاقت علی خان قائداعظمؒ کو دیکھنے زیارت آئے۔ میں قائداعظمؒ کے اصرار پر انہیں شدید علالت میں اکیلا چھوڑ کر مہمان نوازی کے لئے وزیراعظم لیاقت علی خان کے ساتھ کھانے کے کمرے میں گئی۔ میری پریشانی کے باوجود کھانے کی میز پر لیاقت علی خان قائداعظمؒ کی صحت کے حوالے سے متفکر نظر نہ آئے بلکہ بہت خوشگوار موڈ میں تھے اور لطیفے سناتے رہے‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’اگست 1948ء کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قائداعظمؒ نے اپنا خصوصی پیغام گورنر جنرل کی حیثیت سے تحریر کرایا لیکن غلام محمد نے محترمہ فاطمہ جناح کو بتایا کہ قائداعظمؒ کے پیغام کی جگہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنا پیغام بڑے پیمانے پر مشتہر کیا ہے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کا پیغام اشتہاروں کی صورت میں ہوائی جہاز کے ذریعے بڑے شہروں پر گرایا بھی گیا جبکہ قائداعظمؒ کے پیغام کو نظرانداز کردیا گیا‘‘۔ لیاقت علی خان قائداعظمؒ کو دیکھنے جب زیارت گئے تو اس دورے میں اُس وقت کی بیوروکریسی کے سربراہ چوہدری محمد علی بھی اُن کے ساتھ تھے۔ قراردادِ مقاصد کے مبینہ مسودہ نویس چوہدری محمد علی نظریاتی طور پر مولانا مودودی کے قریب تھے۔ پاکستان کی اصل تاریخ پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ چوہدری محمد علی ابتدا ہی میں لیاقت علی خان کے بہت نزدیک ہوگئے تھے جبکہ غلام محمد محترمہ فاطمہ جناح کے قریب تھے۔ شاید اسی لئے غلام محمد کو مختلف پراپیگنڈوں کے ذریعے بدنام کیا گیا۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح کے آخری دنوں کے معالج کرنل ڈاکٹر الہٰی بخش کی کتاب بھی محققین کو بہت کچھ دے سکتی ہے۔ اس کتاب کا مسودہ وزیراعظم لیاقت علی خان کی زندگی میں اشاعت کے لئے منظور نہ کیا گیا۔ انہی دنوں فوجی افسر کرنل محمد ایوب خان درپردہ پاکستان کی سیاست میں اپنا راستہ بنا رہے تھے۔ محمد ایوب خان مبینہ بددیانتی اور 1947ء میں پاکستان کے لئے ناقص کارکردگی دکھانے کے باعث قائداعظمؒ کے لئے ناپسندیدہ شخصیت بن چکے تھے۔ کچھ محققین کے مطابق قائداعظمؒ نے محمد ایوب خان کو ملازمت سے برخواست کرنے کا بھی کہا تھا مگر پہلے اُن کا وزیرستان تبادلہ کردیا گیا پھر انہیں مشرقی پاکستان جنرل آفیسر کمانڈنگ بناکر بھیجا گیا۔ جب قائداعظمؒ مشرقی پاکستان کے دورے پر ڈھاکہ گئے تو محمد ایوب خان جی او سی کی حیثیت سے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ قائداعظمؒ انہیں دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ’’کیا یہ ابھی تک فوج میں ہیں؟‘‘ وزیراعظم لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951ء کو قتل ہوئے جبکہ ٹھیک 9ماہ پہلے یعنی 16 جنوری 1951ء کو انہوں نے ہی ایوب خان کو آرمی کمانڈر انچیف بنایا۔ جنرل محمد ایوب خان نے کمانڈر انچیف بننے کے فوراً بعد فروری 1951ء میں میجر جنرل اکبر خان کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا۔ یہ وہی میجرجنرل اکبر خان ہیں جو قائداعظمؒ کی خواہش پر 1948ء میں کشمیر کی جنگ کے انچارج تھے۔ اُس وقت وہ بریگیڈیئر اکبر خان تھے جو ایوب خان سے سینئر بھی تھے۔ قائداعظمؒ کے لئے ناپسندیدہ شخصیت کو چار برس میں کرنل سے جنرل کیوں بنایا گیا؟ تاریخ کو حقیقت میں تحریر کرنے والا کوئی بھی مؤرخ اگر اُن دنوں کے واقعات اور حالات کی کڑی ملاتا جائے تو ہماری سیاست کے طرزعمل میں دو بڑے نام ابھریں گے جن میں ایک لیاقت علی خان جبکہ دوسرا فوجی افسر محمد ایوب خان کا ہوگا۔ لہٰذا موجودہ پاکستان کو ’’قائداعظمؒ کا پاکستان‘‘ بنانے کے لئے لیاقت علی خان اور ایوب خان کی سیاست پر اصلی تحقیق ضروری ہے۔ 

مصنف کے بارے میں