کل نفس ذائقۃ الموت

کل نفس ذائقۃ الموت

بے شک زندگی فانی ہے اور بالآخر وقت مقررہ پر انسان اپنی منزل یعنی مٹی میں مل جاتا ہے ۔ اس زمین میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ فنا ہونے والا ہے اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی اور فضل و کرم والی ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ موت ہر جاندار چیز کی زندگی کا ایک ایسا امرِ حقیقی ہے جس سے راہ فرار کسی عظیم و طاقتور بادشاہ کو نصیب ہو سکی نا ہی کوئی نیک، صالح اور عالم فاضل ہی اس کے شکنجے سے بچ نکلا۔ مسکراتے بچوں کو پل میں یتیم بنانے والی، عورتوں کو بیوگی کا لبادہ اوڑھانے والی، مسکراتی آنکھوں میں اشک رواں کرنے والی، بستیوں اور شہروںکو سیکنڈز میں اُجاڑنے والی، تمام دنیاوی لذتوں کو ختم کرنے والی اٹل حقیقت ہی موت ہے۔ جو ظالموں اور بدکاروں کو جہنم جبکہ نیکوں اور پرہیزگاروں کو جنت میں پہنچانے والی ہے۔ یہ اپنے 
مقررہ وقت پر کبھی چھوٹے بچوں پر رحم کرتی ہے اور نا ہی بڑے بزرگوں کی تعظیم۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ شاید اسی لیے اقبال فرماتے ہیں:
زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خود گرو خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وہی ہے جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر جد و جہد کون کرتا ہے اور وہی عزت بخشنے والا ہے۔ ہر جاندار کی زندگی خواہ وہ کتنی ہی لمبی کیوں نا ہو بالآخر ایک نہ ایک دن وہ ختم ہونے والی ہے۔ جب بھی دو جہانوں کے مالک کا حکم ہوتا ہے تو موت خالق ِ کائنات کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام دنیاوی رکاوٹوں کو پار کرتی مطلوبہ ہدف کو حاصل کر لیتی ہے، پھر چاہے وہ سورج کی شعاع میں موجودہو یا ظلمت ِ شب کی تاریک راہوں میں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے موت خود زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لیے اس کا وقت بھی مقرر کر دیا ہے اور مقام بھی۔ کسی روح کا جسم سے جدا ہو کر ایک عارضی (دنیاوی) گھر سے دوسرے ابدی گھر (برزخ) میں منتقل ہونے کا عمل ہی موت ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگانی ہے لہٰذا موت اور 
حیات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر جاندار چیز فنا ہونے والی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ہر ذی نفس نے موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔ یعنی انسان ہوں یا جن یا پھر فرشتہ، غرض یہ کہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون امیر، غریب، ظالم اور مظلوم سب کے لیے برابر ہے، پس ہر نفس کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت جیسی اٹل حقیقت سے کسی کو مفر نہیں اور سب کو حساب دینا ہے جو کچھ دنیا میں انہوں نے کیا۔ مقام ِ افسوس کے بنی نوع سب سے زیادہ غفلت بھی اپنی موت سے ہی برتتا ہے، وہ گھڑی جس سے ایک نہ ایک دن سب کو جا ملنا ہے انسان اس کے متعلق سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتا اور دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے جیسی اٹل حقیقت سے جان بوجھ کر غافل رہتا ہے۔ فرعون کو موت سے اس کی بادشاہت بھی نا بچا سکی، ابو جہل اور یزید کی سرداری، شداد کی جنت، نمرود اور قارون کی دولت شہرت اور بادشاہت بھی موت کے سامنے ان کے کام نا آ سکی کیونکہ موت کا ایک وقت معین ہے جب آتا ہے تو کسی صورت بھی نہیں ٹلتا اور نا ہی کوئی دنیاوی طاقت اسے ٹال سکتی ہے۔ ہمارے کتنے ہی قریبی رشتے جنہیں ہماری آنکھوں کے سامنے موت نے آ لیا، پھر انہیں ان کے اعلیٰ نصب، ان کی حسین صورتوں سمیت منوں مٹی تلے دفنا دیا گیا اور وہ وقت مقررہ پر اپنے بچوں کو یتیم، بیوہ کو روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے کپڑے اور سامان پڑا رہ گیا۔ ہر مومن کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح محفلوں میں قہقہے لگانے والے خوش اخلاق لوگ آج منوں مٹی تلے خاموش ہیں۔ ہم جب کبھی موت کو دیکھتے یا سوچتے ہیں تو ہمیں یہ فراق نظر آتی ہے، بظاہر یہ اپنے عزیز و اقارب، اہل و عیال اور اپنے مال و متاع سے جدائی لگتی ہے لیکن در حقیقت یہ ابدی زندگی اور اپنے خالق سے ملاقات کا سبب ہے۔ بقول علامہ اقبال:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام ِ زندگی
ہے یہ شام ِ زندگی، صبح دوام ِ زندگی
دنیا کی زندگی کچھ بھی نہیں آخرت کے آگے مگر متائے حقیر۔ موت سے کیا ڈرنا جب اسے ہر صورت آنا ہی ہے اس اٹل حقیقت سے کسی کو رستگاری یا فرار حاصل نہیں، کوئی بھی موت کو ٹال نہیں سکتا لہٰذا ہر وقت اپنی موت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری کی فکر میں رہنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: اگر تنگ دستی میں موت کو یاد کرو گے تو یہ تمہیں تمہاری زندگی پر راضی رکھے گی۔ موت کی یاد ایمان کو نئی جلا بخشتی ہے اور انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی رندگی کے اختتام اور ابدی زندگی کی ابتدا کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ اس کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ آمین
وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے، رات اور دن کا آنا جانا اسی کے اختیار میں ہے کیا تم عقل نہیں رکھتے۔

مصنف کے بارے میں