پولیس کس کی غلام ؟

پولیس کس کی غلام ؟

پولیس کیسی ہے؟ اچھی ہے یا بری ،رویہ کیسا ہے؟مثبت یا منفی ،انصاف فراہمی ؟ یقینی اور غیر یقینی ،مقدمہ درج کروانا آسان یا نا ممکن ؟اس کا جواب پولیس کے پاس بھی نہیں ہے۔واقعات تو بہت سارے ہیں لیکن ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں ،اور پولیس کیسی ہے ،پولیس کا کام کیا ہے ،پولیس کیسے جرم میں ملوث ہوتی ہے اور ان پولیس والوں سے انصاف اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں جرأت کا مظاہرہ کیسے کرے گی۔ بوڑھے چچا حوالدار نے دوٹوک بتایا کہ بھائی آپکو کس کس کرپٹ پولیس افسر کے بارے میں بتائوں ،چلو آج کسی سپاہی ،چھوٹے اور بڑے تھانیدار کی بات نہیں بلکہ ایک ایس پی کی کارستانی بتاتا ہوں کہ پولیس کر کیا رہی ہے اور اصل میں کرتی ہے کیا ؟ایک ایس پی چوکی میں تعینات پولیس ملازم کی ڈیوٹی لگاتا ہے کہ شراب آئی ہے اس کو کلیئر کر کے شراب اس پتہ پر پہنچاؤں ۔صاحب بہادر کار خاص،پولیس ملازم اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر ایس پی کے کہنے پر چلا گیالیکن وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔پکڑے جانے پر پولیس ملازم نے سب اگل دیا کہ ایس پی نے کہا تھا ،ان کے کہنے پر غیر قانونی فعل میں ملوث ہواہوں۔پھر ہوا یوں کہ ایس پی نے اس پولیس ملازم کو ماننے سے ہی انکار کر دیا اور اس پولیس ملازم کو انکوائری کے بعد اس چوکی سے ہٹا دیا اور چند ماہ گزرنے کے بعد دوبارہ اسی چوکی میں چلا گیا۔ایس پی پر الزام تراشی یا پولیس ملازم خود اس میں ملوث تھا ،اس بات کی تحقیقات کرنا ابھی باقی ہیں ۔’’بوڑھے چچا حوالدار‘‘ کاآئی جی پنجاب ،سی سی پی او لاہورکو مشورہ ہے کہ چوکی میں تعینات اس پولیس ملازم سے دوبارہ تفتیش کی جائے کہ وہ ایس پی کون ہے ،جو شراب کی سپلائی میں ملوث ہے ۔اگر وہ ایس پی پر محض الزام ہے تو اس پولیس ملازم کے خلاف غیر قانونی فعل میں ملوث ہونے پرکارروائی کی جائے، پولیس ملازم کو محکمہ کا حصہ نہ رہنے دیا جائے ۔
ایتھے جیڑا پنوں گے اوای لال اے !  
پولیس حقیقی معنوں میں طاقتور ہے ،جس نے وردی بھی پہن رکھی اور قانون پر عملداری کا اختیار بھی رکھتی ہے لیکن کرتی وہ ہے جو ڈیوٹی اور قانون سرکاری ملازمین کو ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
اچانک حالات بدلے ،پہلی حکومت الٹ گئی ،نئی حکومت آ جانے سے پنجاب پولیس کے ایسے بہت سے افسران تبدیل ہونا شروع ہو گئے جو موجودہ حکومت کے ساتھ ان کے مختلف ادوار میں غلامی کر چکے ہیں ۔وقت وقت کی بات ہے ،غلامی کرنے والے پولیس افسران اب حکومت کے لئے ناپسندیدہ بنتے جا رہے ہیں ۔’’بوڑھے چچاحوالدار‘‘نے چائے کی چسکی لی اورحقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ موجودہ دور میں پسند ناپسند کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیس افسران کی سیاسی پوسٹنگ کا عمل دخل ایک بار پھرپروان چڑھ چکا ہے ۔ حکومت بننے کے بعد پنجا ب پولیس میں نہ رکنے والی تبدیلی سے کوئی بھی پولیس افسر کام نہیں کر رہا ،وہ سوچ رہے ہیں ،باتیں بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس دور میں کس پولیس افسرنے رہنا ہے ،چلے جانا ہے یا کھڈے لائن لگ جانا ہے ۔یہ اور بہت کچھ ایسے خیالات پولیس افسران ایک دوسرے سے بات کرتے دفتر میں وقت گزار رہے ہیں اور کام ٹھپ ہو چکا ہے ۔پولیس کا ہے کام تحفظ عوام کا ،لیکن پولیس ایسی صورتحال میں اپنا سوچے یا عوام کا ،یہ انتخاب کرنا بہت مشکل ہو چکاہے ۔
لاہور اور پنجاب کے متعدد اضلاع میں ایک کے بعد ایک بڑے افسر کی تبدیلی نے پنجاب پولیس کے افسران نے اپنا کام جاری رکھنا چھوڑ دیا ،انھیں یقین ہے کہ وہ تبدیل ہو جائیں گے ،متعدد افسران کو تو ’’او ایس ڈی‘‘ کر دیا گیا ۔یہ ہے طاقت کا استعمال ،اور طاقت کا استعمال وہی کرتے ہیں ،جو اپنا کام سمجھتے ہیں اور کر گزرتے ہیں کہ کس کو کہاں لگانا اور کون افسر غلامی کرنے کو تیار ہے ،یقینا سیاسی غلامی کرنے والاپولیس افسر پھر استعمال ہوتا ہے ،اور اس پولیس افسر سیاسی غلامی کرتے ہوئے بااثر جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں مظلومیت اور ناانصافی کا شکارہونے والوں کا ساتھ دینے کے بجائے انصاف اور پروٹوکول پیسوں میں تول کر دینے کا رحجان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
’’بوڑھے چچا حوالدار‘‘ نے انکشاف کیا کہ پولیس افسر کو ایماندار اور خوددار ہونا چاہئے ،ضمیر فروش نہیں بلکہ انصاف کا ساتھ دیتے ہوئے ظالم کے ہاتھوں ظلم کا شکار افراد کی مدد کرنا ہی اسے اپنا فرض اور ڈیوٹی سمجھنا چاہئے مگر یہاں پیسہ پھینک تماشا دیکھ کی انتہا ہو رہی ہے ۔
حالانکہ پولیس افسر’’ مقابلے کا امتحان پاس‘‘ کر کے آتے ہیں ،خوداپنی مثال ہوتے ہیں ،بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکمہ کا حصہ بنے اور ان کو سمجھ بوجھ بھی کافی ہوتی ہے ،اور’’ سیاسی غلام بن کرہمیشہ کے لئے’’ فیل‘‘ ہو جاتے ہیں ۔راقم الحروف نے اپنے 11سالہ صحافتی کیرئیر میں پولیس کو ایک فیصد نہیں بلکہ سو فیصد بدلتے دیکھا ،پولیس کرپٹ ہے ،یہ کریمینل کے ساتھ مل کر جرائم کرواتی ہے اور کچھ ایسے افسران جو قانون اور اختیارات کا بے دریغ استعمال کر کے جرائم میں بھی ملوث رہ چکے اور بدقسمتی سے متعدد اب بھی محکمہ پولیس کا حصہ ہیں ۔ بڑے افسران سے لیکر سپاہی تک جس کا جہاں داؤ لگتا ہے ،ہاتھ صاف کر جاتا ہے ۔بہت سے ایسے جرائم پیشہ افراد جنہیں پولیس افسران کے دفاتر میں بیٹھے دیکھتا ہوں اور اس دوران سائلین جو ان ہی کریمینل کے خلاف کارروائی کے لئے باہر روک لئے جاتے ہیں اور کافی انتظار کے بعد اس کریمینل کے وہاں سے جانے کے بعد ٹال مٹول کر کے فارغ کر دیا جاتا ہے ۔
آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے ظالم کے ہاتھوں ظلم کا شکارمظلوم شہری اور یہاں تک کہ موبائل چھیننے اور ڈکیتی کی واردات کا مقدمہ درج کرنے سے بھی پولیس گریزاں ہیں ۔قبضہ مافیا ،منشیات فروشوں اور دیگر جرائم میں ملوث کے خلاف نامزد کارروائیاں تو پولیس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ایسا ہی ہو رہا ،بڑے بڑے مافیا پرنس جن کے نام پر کام چلتا ہے ان کے خلاف پولیس نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اورپولیس چھوٹے بھی نہیں بلکہ جوا کھیلنے والے ،نشہ کرنے والے اور جس کی زمین ہتھیا لی جاتی ہے ،اس پرپولیس مقدمہ درج کر کے مافیاز کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے ،جو ظالم اس کو مظلوم کے سامنے کھڑے کر کے انصاف کو یقینی بناکر پولیس امیج کو بہتر کرے ،پولیس کا جو منفی تاثرپھیلتا جا رہا ہے اسے اب ہر صورت روک کر اچھا تاثر دینے کا وقت آ گیا ہے ۔سیاسی غلام بن کر پولیس افسر نے زندگی بسر کرنی ہے یا حق سچ کے ساتھ اپنی ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دینے ہیں ۔ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کیسے گزار رہا ہے ،مگر وردی پہن کر جعلی ایماندار اور ناانصافی کرنے والے پولیس افسران کو اپنے اختیارات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ظالم طاقتور کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کو یقینی بنانا چاہئے اور مظلوم شہری کو چاہے وہ کسی بھی مشکل اور تکلیف میں مبتلا ہواس کے معاملے میں فوری طور پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ،تاکہ پولیس کا بول بالا ہو نہ کہ انہیں کرپٹ ،ضمیر فروش اور سیاسی غلام کا لقب مل جائے کہ پولیس افسر فلاں سیاسی جماعت کا غلام ہے ۔ بات یہ ہے کہ اب ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کون آئے گا ،ایس ایس پی آپریشنز رہیں گے یا نہیں ،ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کون آئے گا ،ایس ایس پی انویسٹی گیشن رہیں گے یا نہیں ،ایس ایس پی ڈسپلن کون آئے گا ،ایس ایس پی ایڈمن رہیں گے یا نہیں ،مختلف ڈویژنوں میں تعینات ایس پیز رہیں گے یا نہیں ،کون سیاسی غلامی کے طور پر کام کرنے کو تیار ہوگا ،سب کچھ آئندہ ہفتے تک منظر عام پر آجائے گا ۔
 قانون شکنی بگاڑ کی باعث بنتی ہے اور قانون شکن کی گرفت پولیس کی اولین ذمہ داری ہے اور اگر پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ بھی اسی قانون شکن کے ہم پلہ ہی ہے اس لئے معاشرتی بگاڑ پر اسے ہوشیار رہنا چاہیے۔

مصنف کے بارے میں