فواد چودھری کو رہا کرنے کیلئے بلایا تھا: جسٹس گل حسن اورنگزیب،رہائی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ 

فواد چودھری کو رہا کرنے کیلئے بلایا تھا: جسٹس گل حسن اورنگزیب،رہائی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ 
سورس: Twitter

اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے فواد چودھری کی رہائی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ فواد چودھری کو عدالت بلانے کا مقصد انہیں رہا کرنا تھا۔ 

فواد چودھری کی اہلیہ کی درخواست پر جسٹس گل حسن نے سماعت کی ۔ بابر اعوان نے کہا کہ فواد چودھری کو جن خدشات پر گرفتار کیا گیا ان کا وجود ہی نہیں ہے۔ 

قبل ازیں  کیس کی سماعت کے لیے فواد چوہدری کو منگل کی صبح بکتر بند گاڑی میں عدالت میں پہنچایا گیا تھا۔ فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی گشیدگی سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے، اسی لیے بہتر ہے کہ معاملہ صلح کی طرف جانا چاہیے۔

  

فواد چوہدری سے میڈیا کے نمائندوں نے پوچھا کہ آرمی کی جانب سے عسکری تنصیبات کے جلاؤ گھیراؤ میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کی بات کی گئی ہے جس پر تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ ’اپنے لوگوں کے خلاف کیسے مقدمات چلائیں گے۔

حراست سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ انھیں حراست میں لینے کے بعد سی آئی اے بلڈنگ کے ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا ہے جہاں حالات برے تھے۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے اس کیس کی سماعت کی جس دوران فواد چوہدری کی جانب سے بابر اعوان اور فیصل چودھری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ حکومت کی نمائندگی ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے کی۔

دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ نو مئی خوشگوار دن نہیں تھا اور اس حوالے سے موجود خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔

انھوں نے فواد چوہدری کے وکلا سے کہا کہ درخواست گزار رہائی کے بعد بیان حلفی دیں کہ وہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور یہ بھی یقین دہانی کرائیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر جمع کروائے گئے بیان حلفی کی خلاف ورزی ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے دوران سماعت کہا کہ عدالت وقت دے رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور آئی جی اس معاملے کو دیکھیں اور اس دوران فواد چودھری کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔ ان ہدایات کے بعد سماعت میں وقفہ کر دیا گیا ہے۔

مصنف کے بارے میں