لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق چوہدری رحمت علی کا 121واں یوم ولادت آج منایا جارہا ہے

لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق چوہدری رحمت علی کا 121واں یوم ولادت آج منایا جارہا ہے

لاہور:پاكستان كا نام تجویز كرنے والے ايك مخلص سیاستدان۔اور دنیا کے پہلے پاکستانی چودھری رحمت علی 16نومبر1897کو مشرقی پنجاب کےضلع ہوشیار پور کےگائوں مو ہراں میں ایک متوسط زمیندار جناب حاجی شاہ گجر کےہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نےایک مکتب سےحاصل کی جو ایک عالم دین چلا رہےتھے۔میٹرک اینگلو سنسکرت ہائی اسکول جالندھر سےکیا۔ 1914میں مزید تعلیم کےلئےلاہور تشریف لائےانہوں نےاسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔ میں اسلامیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی کیونکہ وہ مولانا شبلی سےبہت متاثر تھےاور پھر اس کےپلیٹ فارم سے1915میں تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا۔ 1918میں بی اےکرنےکےبعد جناب محمد دین فوق کےاخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سےاپنےکیئریر کا آغاز کیا۔ 1928میں ایچی سن کالج میں اتالیق مقرر ہوئے۔کچھ عرصہ بعد انگلستان تشریف لےگئےجہاں کیمبرج اور ڈبلن یونورسٹیوں سےقانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ س طرح 1933میں انہوں نےبرصغیر کےطلباءپر مشتمل ایک تنظیم پاکستان نیشنل لبریشن موومنٹ کےنام سےقائم کی ۔ذہن میں رکھئےگا 1933 میں۔اسی سال چودھری رحمت علی نےدوسری گول میز کانفرنس کےموقع پر اپنا مشہور کتابچہ Now or Never۔۔اب یا کبھی نہیں۔شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔اسی طرح انہوں نے پاکستان، بنگلستان اور عثمانستان کے نام سے تین ممالک کا نقشہ پیش کیا۔پاکستان میں کشمیر، پنجاب دہلی سمیت، سرحد، بلوچستان اور سندھ شامل تھے۔ جبکہ بنگلستان میں بنگال، بہار اور آسام کے علاقے تھے اس کے علاوہ ریاست دکن کو عثمانستان کا نام دیا۔ 1935میں انہوں نےکیمبرج سےایک ہفت روزہ اخبار نکالا جس کا نام بھی پاکستان تھا۔ چودھری رحمت علی 23مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کےچونتیسویں سالانہ اجلاس میں لاہور تشریف لانا چاہتےتھےلیکن چند روز قبل خاکساروں کی فائرنگ کی وجہ سےاس وقت کےوزیر اعلیٰ پنجاب جناب سکندر حیات نےچودھری رحمت علی کےپنجاب میں داخلےپر پابندی عائد کر دی ۔وہ 1947ء میں اقوام متحدہ گئے اور کشمیر پر اپنا موقف بیان کیا۔6 اپریل 1948ء میں واپس پاکستان آئے اور پاکستانی بیورہکریسی نے ان کو پاکستان سے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ 29جنوری1951 کو وہ نمونیہ میں مبتلا ہو کر شدید بیماری کی حالت میں انگلستان کےایک مقامی نرسنگ ہوم میں داخل ہو گئےلیکن صحت یاب نہ ہو سکے اور 3فروری1951کو اپنےخالق حقیقی سےجا ملی۔ چودھری رحمت علی کا جسد خاکی انگلستان کےشہر کیمبرج کےقبرستان میں امانتاً دفن ہے۔

مصنف کے بارے میں