ملزم کی 28 سال بعد سزائے موت کی سزا عمر قید میں تبدیل

ملزم کی 28 سال بعد سزائے موت کی سزا عمر قید میں تبدیل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے 28 سال بعد قتل کے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قتل کے ملزم محمد ریاض کے کیس کی سماعت کی۔ ملزم کی پیروی صدیق بلوچ ایڈووکیٹ نے کی اورکہا کہ 1988 میں ملزم کے خلاف تھانہ مکھڈ میں مقدمہ درج ہوا تھا، میڈیکل رپورٹ اورایف آئی آرمیں واضح تضاد ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو دیکھ کرلگتا ہے کہ اصل معاملہ کچھ اورہے، جس کے بعد عدالت نے 28 سال بعد ناکافی شواہد پرملزم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی۔ملزم محمد ریاض کے خلاف اٹک میں ایک عورت کے قتل کا الزام تھا، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت کا حکم دیا تھا جسے لاہور ہائی کورٹ نے اپیل پر سزائے موت برقرار رکھا تھا۔دوسری جانب سپریم کورٹ میں ہی 2009 میں تھانہ چٹیانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی حدود میں اپنے چاربچوں کے قتل میں ملوث ملزم عرفان کی بریت کی درخواست پرسماعت جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ پراسیکیوشن کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، کہانی ناقابل اعتبار ہے، انصاف کی فراہمی کے لیے پولیس کومعاون کا کرداراداکرناچاہیے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ بظاہرایسا لگ رہا ہے کہانی بنائی گئی، مقتول بچوں کے منہ اورآنکھیں کھلی ہوئیں تھیں۔ اگرگواہان وہاں موجود تھے تواخلاقی طورپران کوبچوں کے منہ اورآنکھیں بند کرنی چاہیے تھیں۔ عدالت نے شک کی بنیاد پرملزم کی بریت کا حکم دے دیا۔