تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا

تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا

ریاستِ پاکستان دیدہئ بینا تو کبھی نہ تھی لیکن اس طرح لونڈوں کا کھیل بھی پہلی بار بنی ہے۔ اگر آپ ایک سو دس فیصد عمران خان کے ساتھ ہیں تو آپ محب وطن، باکمال، باکردار اور مرد مومن ہیں لیکن اگر آپ نے 0.01 فیصد بھی عمران کی کسی ایک بات سے اختلاف کیا ہے تو آپ بدترین غدار، صلاحیت سے عاری اور تیسرے درجے کے مشرک ہیں اور آپ نے عمران خان کے ساتھ نہیں ریاست مدینہ کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروان چڑھایا گیا ہے۔ عمران کو کب یار لوگوں نے ”مرشد“ کہنا اور مشہور کرنا شروع کیا معلوم ہی نہیں ہوا اور اب نوجوانوں کی بڑی تعداد نہ صرف اُسے مرشد مانتی ہے بلکہ اکثریت اُسے مرشد سمجھتی بھی ہے۔ ممکن ہے یہ شیزوفرینیا کی کوئی نئی قسم ہو لیکن ہم یہ تماشا پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسا ”مرشد“ بن چکا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا، کبھی وعدہ خلافی نہیں کر سکتا، جو اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہے اور اُس کا کہا حرف ِآخر ہے۔ اب مرشد کے نزدیک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں، ان کے قائدین، ادارے اور اِن کے سربراہان نامور چور اور غیر محب وطن ہیں۔ دو دو ٹکے کے سوشل میڈیا ملازم جب چاہیں افواج پاکستان، عدلیہ، انتظامیہ، قانون ساز ادارے اور الیکشن کمیشن کے خلاف ٹرینڈ چلا دیں کوئی اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ عمران خان اُس کی جماعت کے ہر لیڈر اور ورکر کیلئے یہ ملک کھیل کا میدان بن چکا ہے ایسا کھیل جس میں صرف آخر پہ بچ جانے والا فاتح کہلائے گا۔ میں نے عمران خان کے ساتھ ایک زندگی گزاری ہے، اُسے قریب سے دیکھا ہے، اُس کے ساتھ طویل بات چیت کی ہے، تحریک انصاف کے منتخب اور تنظیمی عہدوں پر کام کیا ہے لیکن مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا کہ اس نسل کو پیدا کرنے میں اسلام آباد کے دھرنے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جہاں 126 دن تک روزانہ شام ہوتے ہی پاکستان کی مسخ شدہ تاریخ اور ناقابل ِ یقین واقعات کا ایک سڈی سرکل شروع ہو جاتا تھا جسے وہاں بیٹھے ہزاروں اور ٹی وی چینلز پر لاکھوں کروڑوں لوگ سنتے تھے۔ تحریک انصاف 2013ء کے بعد 2018ء تک اپنی الیکشن مہم پر رہی اور اِس کے سہولت کاروں نے اُسے ہر وہ شے بہم پہنچائی جس کی اُسے ضرورت تھی۔ اب یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے جس کا اعتراف چیئرمین تحریک انصاف خود بھی کر چکے ہیں۔ اس بچے کھچے پاکستان کی سیاسی تاریخ دراصل اسٹیبلیشمنٹ کے کھیل تماشوں کا سرکس ہی تو ہے جہاں قائد اعظم سے لے کر لیاقت علی خان اور مجیب الرحمن سے لے کر بھٹو تک اور بھٹو سے لے کر ضیا باقیات اور اب ریٹائرڈ آئی ایس آئی چیفس کے تخلیق کردہ بت کے اختلافات تک کبھی نہ ختم ہونے والا تماشا جاری ہے۔ مجیب نے تو تنگ آ کر کہہ دیا ”جائیں ہم آپ سے نہیں بولتے“۔ اور پھر اُس کے بعد جو کچھ ہوا وہ الگ سے ایک خون آشام تاریخ ہے۔ بھٹو کے مد مقابل جب مغربی پاکستان کا کوئی قد آور لیڈر نہ بچا تو پہلے بھٹو ضیا الحق کے آگے کھڑا رہا اور پھر ضیا الحق نے سب کو آگے لگائے رکھا۔ میں آج تک یہی سوچ رہا ہوں کہ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف چلنے والی تحریک دیکھتے دیکھتے نظام مصطفیؐ کی تحریک میں کیسے بدل گئی؟ جس کا سیدھا سا جواب بعد ازاں افغانستان کی جنگ کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ نظام مصطفیؐ کی تحریک کے ذریعے مذہبی مکالمہ کرا کر پاکستان کے ہر گھر کی ہواؤں اور فضاؤں تک کو مذہبی کر دیا گیا تاکہ آنیوالے دنوں میں افغانستان وار کا را میٹریل یہاں سے حاصل کیا جا سکے اور پھر ایسا ہی ہوا اور ہمارے بہت سے کلاس اور بینچ فیلوز ”حق و باطل“ کے اس معرکہ میں کام آئے۔