ڈاکٹر بمقابلہ مریض

ڈاکٹر بمقابلہ مریض

پاکستان کے طول و ارض میں پھیلائی جانیوالی مایوسی ،بکھرے واقعات ،ان گنت مفروضات اور بے شمار واہمات میں سچ تو کہیں کھو سا گیا ہے۔ این اے 120میں الیکشن آیا ہی چاہتا ہے ۔ پھر ثور پھونکا جا رہا ہے ، وہی الف لیلوی قصے کہانیاں ۔جھوٹ میں مزید جھوٹ ملا کر خالص سچ کا دعویٰ۔ مقابلے جاری ہیں کہ کون بہتر ہے ¾ ہر کوئی اپنی اپنی زنبیل میں نتیجہ لئے پھر رہا ہے ،ہر کسی کا اوڑنا بچھوڑنا بیلٹ بکس کے اندر ہے۔
مسلم لیگ(ن) تو تھی ہی سٹیٹس کو کی جماعت ،آمریت کی گود میں پروان چڑھنے والی جماعت جس کے سربراہ نواز شریف آج کل دعوے کرتے پھر رہے ہیں کہ وہ نظریاتی ہو چکے ہیں لیکن کیا آج پی ٹی آئی ایک نظریاتی جماعت ہے ؟۔ تحریک انصاف پاکستان میں تین جماعتی نظام کی صورت میں ایک امید بن کر ابھری تھی۔ دعویٰ تھا کہ کسی کرپٹ کو جماعت میں شامل نہیں کیا جائے گا ،کسی کرپشن کو برداشت نہیں کیا جائیگا ۔ مگر بعد ازاں جس کلچر کو فروغ دیا گیا کیا وہ نظریاتی جماعت کا کلچرہے؟۔ چیئر مین عمران خان کے بیانات کی مثال نہ بھی دی جائے کہ مانا وہ جذبات کی رو میں بہک جاتے ہیں یہ اعتراف بھی کر لیتے ہیں کہ” 2013ءکے الیکشن میں انہیں ووٹ نہ دے کر پاکستانی عوام نے بالکل درست کیا تھا کیونکہ وہ سیاسی طور پر اس قدر بالغ ہی نہیں تھے“۔ ہم اس بات کا تذکرہ بھی نہیں کرنا چاہیں گے کہ اگر وہ آج 4سال بعد خان صاحب تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ 2013ءمیں سیاسی طور پر نابالغ تھے تو کیا معلوم اقتدار میں آنے کے 4سال بعد یہ پھر نہ فرما دیں کہ ہم ابھی تک سیاسی طور پر نابالغ ہیں۔ اس لئے ہم آج عمران خان صاحب کی نہیں این اے 120سے پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کی بات کریں گے۔
ان کا ایک بیان نظر سے گزرا جس کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں تھے ۔”(ن) لیگ والوں کو جوتیاں مارنی چاہیں ¾ یہ شہزادی مریم جب حلقے میں آتی ہے تو ٹریفک جام کر دیتی ہے ، لعنت ہو اس شہزادی پر اور لعنت (ن) لیگ پر ،میں مال روڈ بند کر دوں گی وغیرہ وغیرہ وغیرہ“۔ڈاکٹر یاسمین راشد ایک گائناکالوجسٹ ہیں ،پی ٹی آئی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے سے پہلے ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ان کے سسر ملک غلام نبی پیپلز پارٹی کے رہنما اورذوالفقار علی بھٹو کے ایک خاص دور میں قریبی رفقاءمیں شامل تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ آج تک کسی حلقے سے جیتی نہیں اس لئے ان کے کریڈٹ پر سیاسی طور پر کوئی کامیابی نہیں ہے مگر2013میں نواز شریف کے مقابلے میں حیران کن طور پر ایک مضبوط امیدوار کے طور پر مقابلہ کیا اور 52ہزار 321ووٹ حاصل کئے۔ مگر عوام کی خدمت کیلئے انتخابات میں کامیابی نہ بھی ہو تو اگلے انتخابات کی تیاری ضرور کرنا پڑتی ہے مگر گزشتہ چار سالوں میں ڈاکٹر یاسمین راشد ،زبیر خان نیازی نے اس حلقے میں کسی کو اپنی شکل نہیں دکھائی۔ تھانے ،کچہری، عوام کے مسائل ، گٹر ،گلیاں ترقیاتی کام انہوں نے کسی میں بھی دخل اندازی نہیں کی۔ اپنی دبنگ شخصیت، اپنی تعلیم کے علاوہ ڈاکٹر یاسمین راشد صرف اسی وجہ سے جیت سکتی ہیں کہ ہے کہ ان کا تعلق عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی سے ہے ۔
مگر آج پی ٹی آئی کی اپنی حالت کچھ اتنی مضبوط نظر نہیں آ رہی ۔عمران خان کادوسری جماعتوں پر یہ الزام تھا کہ وہ شخصی بنیاد پر چل رہی ہیں یعنی پیپلز پارٹی بھٹوز کی وجہ سے چل رہی ہے ،مسلم لیگ(ن) کی کرتا دھرتا شریف فیملی ہے۔ مگر آج اس حوالے سے سب سے بری حالت تحریک انصاف کی نظر آتی ہے۔عمران خان کے علاوہ پارٹی میں ایک بھی ایسا چہرہ نظر نہیں آتا جو ان کے بعد پارٹی چلاسکے ۔پی ٹی آئی کی دوسری خصوصیت سٹیٹس کو کیخلاف آواز تھی۔ 2013ءمیں تحریک انصاف کے اس نعرے کو ووٹ ملے تھے جس میں کلین لوگوں کو سامنے لانے کا دعویٰ کیا گیا ۔

مگر آج پی ٹی آئی میں سب کلین لوگ کھڈے لائن لگ چکے ہیں اور ہرطرف جہانگیر ترین ،علیم خان ، شاہ محمود قریشی جیسے لوگ نظر آرہے ہیں۔جہاں عائشہ گلالئی پر کے پی میں خود پی ٹی آئی اربوں کی کرپشن کا الزام لگا رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عائشہ گلالئی نے اربوں کی کرپشن کی تو باقی رہنماﺅں نے کتنی کرپشن کی ہو گی؟۔ اب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ وہ الیکٹ ایبلز سامنے لائیں گے ، کے پی کی کرپشن ان کا معاملہ نہیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ آج پی ٹی آئی بھی مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی کی طرف ایک سٹیٹس کو کی علمبردار جماعت ہے۔ اس کی جو اپنی ”یو ایس پی“ تھی اس کو کہیں کھودیا گیا ہے۔
(ن) لیگ کی بات کی جائے تو مریم نواز اپنی والدہ کی علالت کے باعث این اے 120کی انتخابی مہم میں پیش پیش رہیں۔ لیکن انہوں نے کسی بھی تقریر میں غیر پارلیمانی الفاظ استعمال نہیں کئے ۔دیکھا جائے تو شریف فیملی کی زبان ہمیشہ شستہ رہی ہے۔ نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد بھی عمران خان کے نام کے ساتھ صاحب کا لاحقہ لگاتے رہے ،مریم نواز نے پوری انتخابی مہم کے دوران کوئی ایک بھی ناشائستہ جملہ استعمال نہیں کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ (ن) لیگ کی طرف سے کوئی غیر اخلاقی حملہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریف فیملی عمران خان کی طرح ناتجربہ کار نہیں ہے۔

شریف فیملی نے اس ”ڈرٹی جاب“ کیلئے کچھ مخصوص لوگ رکھے ہوئے ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ عمران خان اپنی زبان سے غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرتے ہیں ، شریف فیملی اس کا شائستہ اور دیگر ڈیوٹی پر موجود لوگ ناشائستہ جواب دیتے ہیں۔جہاندیدہ ہونے کے ساتھ (ن) لیگ کی ایک مثبت چیز عوام کی خدمت بھی ہے۔

اس بات کے باوجود کے 4سالوں میں حکمران جماعت کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا گیا لیکن اس کے باوجود ان کی کارکردگی ایسی ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام کی عدالت میں جا سکتے ہیں اور ان کی زنبیل میں کچھ ایسی چیزیں موجود ہیں جو انہیں یہ آگ کا دریا پار کروا سکتی ہیں۔ بہاولپور ، شیخوپورہ ، ملتان ، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں ترقیاتی کام نظر آتے ہیں۔ لاہور کی تو (ن) لیگ نے شکل ہی بدل کر رکھ دی،اگر اورنج ٹرین کا منصوبہ مکمل ہو جائے تو ووٹرز کے پاس کوئی اور چارہ بالکل ہی نہیں رہ جاتا۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ تحریک انصاف پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے ، پشاور میں بننے والا ایک واحد فلائی اوور بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، کوئی ترقیاتی کام ہوتا نظر نہیں آیا ،پہلے میٹرو کو جنگلہ بس کہا گیا پھر وہی جنگلہ بس منصوبہ خود بھی شروع کر دیا گیا ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری ظاہر کرتی ہیں اور ان سب عوامل کا سیدھا اثر اگلے انتخابات پر ہوتا نظر آرہا ہے ۔
درحقیقت این اے 120میں سٹیٹس کو کی علمبردار 2جماعتوںمسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔ پہلی دو نمبر تو بک ہو چکے ہیں ہاں تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے فیصل میرجو سنیئر صحافی حامد میر کے بھائی ہیں ان کے امکانات ہیں جبکہ قرین قیاس ہے کہ عوام ایک بڑے مارجن سے سٹیٹس کو کی تجربہ کار جماعت مسلم لیگ(ن) کو منتخب کریں گے ۔کیونکہ قرطبہ چوک پر عمران خان کی آمد کے باوجود تاریخی ناکام جلسہ سے تو یہی لگ رہا ہے پی ٹی آئی کے ساتھ اچھی نہیں ہونیوالی۔ سو ہم دھاندلی کا الزام ایک بار پھر سننے کیلئے تیار ہیں۔

نوٹ : بلاگ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔نیونیوز نیٹ ورک کا بلاگر کی رائے اور نیچے آنے والے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

لکھاری کے بارے میں :محمد اویس غوری  سینئر صحافی ،کالم نگار، بلاگر ہیں