عالمی امداد کے منتظر، افغان عوام

عالمی امداد کے منتظر، افغان عوام

قطر جس نے طالبان کو اپنے ہاں اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی فی الحال وہ بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیںہے بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ابھی کوئی جلدی نہیں ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے لیے میز بچھائی تھی اور پاکستان کو اعتماد میں لے کر ایک ایسا معاہدہ کرایا دیاجس کے نتیجہ میں بالآخر امریکہ کو افغانستان کو خیرآباد کہنا پڑا۔امریکی ایک بات میں یکسو نظر آ ر ہے ہیں کہ و ہ افغانستان کی طرف نہیں دیکھ رہے ۔ان کی سول اور فوجی قیادت نے اس بات کو جان لیا ہے کہ افغانستان ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اب وہاں مزید توانائیاں صرف کرنا حماقت ہو گی۔افغانستان اب علاقائی ممالک کی ذمہ داری ہے اور علاقائی ممالک نے اپنے ہاں دہشت گردی کو روکنے کے لیے طالبان کے ساتھ معاملات کو طے کرنا ہیں۔ 
امریکی اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ افغانستان میں القاعدہ ایک بار پھر سر اٹھا سکتی ہے اور امریکہ کے لیے آنے والے ایک دو برس میں ایک خطرہ بن سکتی ہے۔امریکی ماہرین اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد کی پالیسی امریکہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی کیونکہ  امریکہ کو افغانستان سے کوئی انٹیلی جنس نہیں ملے گی۔ امریکی انٹیلی جنس کے تمام تر ذرائع محدود یا مسدود ہو رہے ہیں۔ امریکیوں نے جن افغانوں پر سرمایہ کاری کی تھی وہ افغانستان سے بھاگ رہے ہیں یا بھاگ چکے ہیں۔ باقی بھی جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ امریکہ اوریورپ سمیت دوسرے ممالک میںافغانوںکو بسانے کا منصوبہ بھی بڑی تعداد میں افغانستان سے لوگوں کے انخلا کا باعث بنا ہے۔کو ن چاہے گا کہ جب موقع ملا ہے تو وہ افغانستان میں ہی رہے اور جب یہ ڈر بھی ہو کہ طالبان ان کے ساتھ سختی کریں گے۔ افغانستان میں امریکی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے اور اس کے لیے جاسوسی اور ترجمے کا کام کرنے والے اس سنہری موقع کو ہاتھ سے کیوں جانے دیں گے۔ وہ کسی تحریک سے وابستہ نہیں ہیں تو وہ کیوں افغانستان میں ٹکے رہیں گے۔
وہ لوگ جو افغانستان سے بھاگ رہے ہیںوہ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی مسئلہ بن سکتے ہیں ۔ پاکستان کواس سارے عمل پر نظر رکھنا ہوگی اور ان کے حوالے سے ڈیٹا بیس تیار کرنا ہو گا کہ کل یہی افغان پاکستان میں آکر ہمارے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں اورہم چاہ کر بھی ان کو بند نہیں کر سکتے۔ سٹرٹیجک معاملات ایسے ہیں کہ ہمیں طالبان کے ساتھ ہر حال میں چلنا ہو گا مگر بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔طالبان کی تربیت میدان جنگ کی ہے اور ملک کو کیسے چلانا ہے ابھی انہیںاس کا تجربہ نہیں ہے وہاں کی بیوروکریسی کون سی ہو گی اور اگر سب جگہوں پر طالبان کو بٹھانا ہے تو پھر ان کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ ویسے بندوق سب کچھ سکھا دیتی ہے۔ بہت سے مسائل کے حوالے سے ابھی طالبان کی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی اور لگ یوں رہا ہے کہ طالبان خود بھی اندر سے تقسیم ہو رہے ہیں۔جب یہ خبریں آئی تھیں کہ کابینہ کے معاملہ پر طالبان کے اندر اختلافات موجود ہیں تو اسے محض افواہ سمجھا گیا تھا مگر اب نظر آ رہا ہے کہ اس افواہ میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی موجود ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر منظر سے غائب ہیں حالانکہ انہیں کابینہ میں اہم عہدہ دیا گیا ہے اور جس 33رکنی عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا ہے وہ بھی کھل کر سامنے نہیں آ رہی اور نہ ہی افغانستان کے معاملات کو صحیح طریقے سے سنبھال رہی ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا سے جو سبکی ہوئی ہے وہ امریکی کسی طور بھولنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کا ذمہ دار پاکستان کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی نے امریکہ میں یہ بات نہیں کی کہ امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان کا بھی جانی اورمالی نقصان ہوا ہے سب ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ اس جنگ میں پاکستان مکمل طور پر امریکیوں کے ساتھ نہیں تھا ۔ اب امریکہ میں یہ مطالبات بھی شروع ہو گئے ہیں کہ پاکستان سے نان  نیٹو اتحادی کا درجہ واپس لیا جائے۔امریکی وزیرخارجہ نے پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ جب تک طالبان بین  الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتے اس وقت وہ بھی ان کی حکومت کو تسلیم نہ کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ وعدے کیا ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان اس لوگوں کو ملک سے باہر نکلنے دیں جو افغانستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں،خواتین،لڑکیوں اوراقلیتوںکے حقوق کا تحفظ کریں او ر ملک کو دوبارہ دوسرے ملکوں کے دہشت گردی کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہ بننے دیں۔ان میں سے صرف دو مطالبات ہی اصل میں امریکی مطالبات ہیں ان میں ایک وہ لوگ جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں انہیں اجازت دی جائے اور دوسرا افغانستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہ بنے۔ رہی انسانی حقوق کی بات تو امریکیوں کے لیے یہ ایک عذاب ہے امریکہ نے خود کتنا انسانی حقوق کا احترام کیا ہے۔ گوانتانامو بے سے آنے والے تصاویر اب تک لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ بغیر ٹرائل بے شمار لوگ ابھی تک امریکی جیلو ںمیں سڑ رہے ہیں۔ دنیا  کے دوسرے ممالک میں جو انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں امریکیوں کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ اب بھی افغانستان میں کئی امریکی شہری پھنسے ہوئے ہیں اور طالبان نے انہیں ملک چھوڑنے سے منع کر دیا ہے اور خیال یہ کیا جارہا ہے کہ وہ انہیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔افغانستان ابھی تک لااینڈ آرڈر کے مسئلہ سے دوچار ہے اور وہاں پر امن لانے کے لیے  ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین پر تشدد کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں اور یہ شکایات بھی موجود ہیں کہ بعض جگہوں پر طالبان لوگوں کے گھر خالی کرا رہے ہیں۔حامد کرزئی ائیرپورٹ کا نام بدل کر کابل ائیرپورٹ رکھ دیا گیا ہے تاہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو  سکا کہ اس ائیرپورٹ کی ذمہ داری کس کو دی جائے گی ۔ ترکی بھی اسے چلانے کا خواہاں ہے اور قطر بھی اس کا امیدوار ہے۔ طالبان دونوں سے مذاکرات کر رہے ہیں ۔
طالبان اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کو آج بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اب بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ طالبان کے خاندان پاکستان میں مقیم ہیں اور حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے پاکستان کے اندر رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی بہت کوششیں ہو چکی ہیں مگر اب تک وہ سب ناکام ہو ئی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کابل پر پاکستا ن مخالف حکومت تھی تب بھی پاکستان افغانستان میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے تو ان حالات میں پاکستان پر شک کرنے کے بجائے اس کے ذریعے افغانستان کی حکومت کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یورپی ممالک امریکی پٹھو بننے کے بجائے اپنے مفادا ت کو سامنے رکھیں اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اپنا بھرپور کردار  ادا کریں ۔ طالبان کو ملک چلانے کے لیے جس امداد کی ضرورت ہے وہ انہیں فراہم کریں۔ پاکستان  اور افغانستان کی سرحد 2570کلومیٹر طویل ہے اسے محفوظ بنانے کے لیے سب فریقوں کوآگے آنا ہوگا۔افغانستان میں پاکستان سب کچھ کرنے کے لیے  آزاد نہیں ہے۔ساری دنیا کی طرح پاکستان کا بھی صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کابل میں بھارت نواز حکومت برسراقتدار نہ آئے اور پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ دولت اسلامیہ سمیت بہت سے دہشت گرد گروپ اب بھی افغانستان میں موجود ہیں اور سب کی نظریں طالبان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ ان گروپوں کو ختم کرنے کے لیے کیا کردار ادا کرتا ہے۔