ڈاکٹر صفدر محمود بھی ایک افسر تھے!

ڈاکٹر صفدر محمود بھی ایک افسر تھے!

ایک نامور دانشور سچے پاکستانی اور بہت اچھے انسان ڈاکٹر صفدر محمود بھی چلے گئے۔ وہ پچھلے کچھ عرصے سے بیمار تھے، جتنی پاکیزہ زندگی اُنہوں نے گزاری، کھانے پینے کے معاملے میں جتنے وہ محتاط تھے، اور واک کے جس قدر وہ رسیا تھے، میں اکثر سوچتا تھا وہ ہمیشہ تندرست وتوانا ہی رہیں گے میرے والد محترم ایسی ہی زندگی گزارنے کی جب اکثر مجھے نصیحتیں فرماتے، میں اُن سے کہتا ’’ ابو جی ان سب احتیاطوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ موت کا اِک دِن مقرر ہے، جب موت آتی ہے مر تو وہ بھی جاتے ہیں جو کم کھاتے ہیں، پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں یا ورزشیں وغیرہ کرتے ہیں، وہ بیمار ہوکر نہ مریں تو کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں ‘‘… وہ فرمانے لگے ’’بیٹا آپ صحیح کہتے ہو، موت پر میرا ایمان بھی اُتنا ہی مضبوط ہے جتنا آپ کا ہے، مگر اِن سب احتیاطوں سے جتنی زندگی ہوتی ہے کم ازکم وہ بہتر گزرجاتی ہے‘‘… ڈاکٹر صفدر محمود نے بہت اچھی زندگی گزاری، موت برحق ہے۔ جو دنیا میں آیا اُسے چلے جانا ہے، یہ حقیقت سب کو معلوم ہے، پر اِس پر ایمان کوئی کوئی رکھتا ہے، البتہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں یا تبدیلی کے خواب کا جو عذاب ہم جھیل رہے ہیں اب سوچنا پڑتا ہے زندگی بہتر ہے یا موت؟، شاعر نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا ’’موت سے ترے دردمندوں کی … مشکل آسان ہوگئی ہوگی ‘‘ …ڈاکٹر صفدر محمود کے ساتھ میری بہت یادیں وابستہ ہیں، چھہتربرسوں میں بھی اُن کا دِل بچوں جیسا تھا، وہ بہت جلد ناراض ہو جاتے تھے اور بہت جلد مان جاتے تھے، وہ ایک بے نیاز شخص تھے، اُن کی ’’نیازمندی‘‘ صرف ’’انسانیت‘‘ سے تھی، وہ لوگوں سے بہت کم ملتے جلتے تھے، وہ محفلوں کے آدمی نہیں تھے۔ مگر جنہیں وہ پسند کرتے تھے اُن کی خواہش ہوتی تھی وہ آکر اُن سے ملتے رہیں، ہردوچار مہینے بعد مجھے اُن کا فون آتا۔ وہ مجھ سے ناراض ہوئے میں اُن سے ملنے کیوں نہیں آیا۔ میں اپنی مصروفیت کے حوالے سے کوئی نہ کوئی جھوٹ سچ بول کر اُن سے معذرت کرلیتا اور ان سے مِلنے چلے جاتا۔ دیرتک اُن کے ساتھ رہتا، بے شمار موضوعات پر وہ بولتے چلے جاتے، میں سیکھتا چلے جاتا، وہ بے شمار اہم سرکاری عہدوں سے جُڑے رہے، سول سروس میں اُن کی آمد کا یہ وہ زمانہ تھا جب بیوروکریسی میں ہوس، حرص لالچ، طمع اور دیگر خرافات بہت کم تھیں۔ اب اِن خرافات کے علاوہ کئی نئی خرافات بھی بیوروکریسی سے ایسی مضبوطی سے جُڑ گئی ہیں شاید ہی اب کبھی الگ ہوں، ہم یہ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں یہ شعبہ مزید زبوں حالی یا تباہی کا شکار ہوگا، یہ نہیں کہہ سکتے کوئی مثبت تبدیلیاں اِس میں آئیں گی، یا یہ اپنی اصلاح کی طرف راغب ہوگا، کیونکہ اِس شعبے پر یہ سوچ حاوی ہوچکی ہے اگر باقی شعبے ٹھیک نہیں تو اس نے ٹھیک ہو کر کیا کرنا ہے؟۔ حالات اب اِس بدترین مقام پر آن پہنچے ہیں ہمارے بے شمار افسران حرام کے کام پاکستان میں کرکے اُس کا پیسہ پاکستان میں پکڑنے کے بجائے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ، آسٹریلیا اور یورپ کے مختلف ممالک میں پکڑتے ہیں، وہاں جائیدادیں بنائی جارہی ہیں، وہاں کی شہریتیں حاصل کی جارہی ہیں، میرے پاس اس حوالے سے اتنے شواہد اکٹھے ہوگئے ہیں سنبھالنے مشکل ہوگئے ہیں، میںنے کئی بار یہ لکھا اور کہا اِس ملک کے سیاستدانوں نے اُس کے عشرعشیر کرپشن نہیں کی جتنی کچھ افسروں نے کی،… وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خلاف نعرے بلند کرکے اقتدار میں آئے تھے، بدقسمتی سے نچلی سطح پر کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے ہم اب یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے وزیراعظم خود نہیں کھاتے، اتنے بے خبر وہ یقیناً نہیں ہوں گے اُنہیں یہ معلوم ہی نہ ہو اُن کی ناک تلے کیسی کیسی حرام کاریاں ہورہی ہیں؟۔ اپنی بے بسی کا وہ اعتراف کرلیں ورنہ ایک کام کریں کسی اچھی شہرت کی حامل خفیہ ایجنسی سے معلومات لیں کہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان افسران کی اکثریت نے جب سروس جائن کی تھی تب اُن کے اثاثے اور مال وزر کتنے تھے اب کتنے ہیں؟ یہ جرأت صرف وہی حکمران کرسکتا ہے جو پاکستان کو صرف ’’گلی باتی‘‘ نہیں واقعی مدینے کی ریاست بنانا چاہتا ہو … ڈاکٹر صفدر محمود جیسے لوگ ایک جگنو تھے ایک چراغ تھے، یہ چراغ بھی اب بجھتے جارہے ہیں، یہ جگنو بھی اب مرتے جارہے ہیں، اب تو ہرطرف مکھیوں اور مچھروں کا راج ہے، کوئلیں اور فاختائیں اب کہیں نظر نہیں آتیں، ہرطرف کوے ہی کوے، چیلیں ہی چیلیں نظر آتی ہیں، … صفدر محمود جس عہدے پر رہے اُسے وقار بخشا، ناجائز کمائی کا تصور تک اُن کے ہاں نہیں تھا، وہ ہرحال میں انا کو مقدم رکھنے والے انسان تھے، جس عہد میں اُنہوں نے سول سروس جائن کی تب عمومی طورپر مختلف اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے افسروں کی اہلیت، کارکردگی اور کردار دیکھا جاتا تھا۔ اب اکثر افسران کی تقرریاں جس بنیاد پر ہوتی ہیں ’’انتظامی ڈھانچہ‘‘ چُورچُور ہوکررہ گیا ہے، سرعام بتایا جاتا ہے میں اتنے پیسے دے کے لگاہوں، … میں آپ کو ڈاکٹرصفدر محمود کی انا کا ایک واقعہ سناتا ہوں، ملک معراج خالد جب پاکستان کے نگران وزیراعظم بنے ڈاکٹر صفدر محمود کی گریڈ اکیس یا شاید بائیس میں پروموشن کا معاملہ تھا۔ ان کے خیال میں اُس وقت کے وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ شاہد حامد جو اُن کے بیج میٹ بھی تھے اُن کی پروموشن میں رکاوٹ بن سکتے تھے، اُنہوں نے مجھ سے اِس کا تذکرہ کیا، میں نے اِس ضمن میں نگران وزیراعظم ملک معراج خالد سے بات کی، اگلے روز اسلام آباد سے مجھے اُن کی کال آئی، کہنے لگے ’’میں نے شاہد حامد سے بات کرلی ہے، آپ صفدر محمود سے کہیں اُن سے مِل لیں ‘‘۔ … میں نے جب یہ پیغام ڈاکٹر صفدر محمود کو دیا وہ بولے ’’اگلے گریڈ میں ترقی کے میرٹ پر میں اگر پورا اُترتا ہوں تو یہ ترقی مجھے شاہد حامد سے ملے بغیر ملنی چاہیے، میں اُن سے ملنے نہیں جائوں گا ‘‘ …میں نے اُن کا یہ پیغام اِسی طرح نگران وزیراعظم ملک معراج خالد تک پہنچا دیا، ساتھ ہی اُن سے گزارش کی وہ شاہد حامد سے کہیں وہ خود صفدر محمود صاحب سے رابطہ کرلیں، معراج خالد نے یقیناً اُن سے کہا ہوگا، اُنہوں نے صفدر محمود سے رابطہ تو نہ کیا مگر اُن کی ترقی میں حسبِ خواہش رکاوٹ بھی نہ بن سکے(جاری ہے)