حکومت نہیں سیاست بچاؤ

حکومت نہیں سیاست بچاؤ

پی ٹی آئی کو ہٹا کر شہباز شریف لانے کا واحد مقصد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا۔ اعداد و شمار سے واضح ہے کہ ملک کی معیشت کا دھڑن تختہ جولائی 2021 میں ہی ہو چکا تھا۔ مارچ تک آتے آتے معاملات کنٹرول سے باہر نکلتے نظر آئے تو سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو حکومت سونپ دی گئی۔ ابھی حکومت نے کام شروع بھی نہیں کیا تھا کہ اداروں سے کچھ ایسے پیغامات ملے جن سے کم ازکم اتنا تو واضح ہوگیا کہ کسی بھی کام کے لیے فری ہینڈ نہیں دیا جائے گا۔ ایسے حالات میں کیسی کارکردگی دکھائی جاسکتی تھی یہ سوچنا حکومت لینے والوں کا کام تھا مگر اس دوران اقتدار کی لالچ اور کنفیوژن غالب رہی۔ کارکردگی دکھانے کی گنجائش ہی کہاں تھی۔ پنجاب میں چند روز کے لیے حکومت دے کر پھر واپس پی ٹی آئی کو لوٹانے کے عمل نے صرف دائرہ اختیار ہی محدود نہیں کیا بلکہ مسلم لیگ ن کو بڑی مشکل میں پھنسا دیا۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے جن دوست ممالک سے بھی رابطے کیے گئے ہر جگہ سے یہی جواب آیا کہ پہلے آئی ایم ایف سے معاہدہ کریں اسکے بعد ہم بھی دیکھیں گے اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ ایک پیج کے چار سالہ دور کے بعد ہماری سفارتی ساکھ بھی متاثر ہوچکی ہے۔ مہنگائی، بجلی کے کمر توڑ بلوں اور پیٹرول، ڈیزل کے نرخوں میں اندھا دھند اضافے نے عام لوگوں کی چیخیں نکلوا دیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج عوام کے حکومت مخالف جذبات کی شدت جاننے کا صرف ایک پیمانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ غصے سے بھرے بیٹھے ہیں۔ اوپر سے رہی کسر سیاسی جماعتوں خصوصا مسلم لیگ ن نے سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے یکسر لاتعلق ہو کر نکال دی۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے چارج سنبھالتے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم ملک بچانے کے لیے آئے ہیں چاہے اس کی قیمت ہمیں اگلے عام انتخابات ہار کر چکانا پڑے۔ یہ حب الوطنی تھی یا احمقانہ حرکت؟ سادہ سی بات ہے کہ معاملات خواہ کتنے ہی گمبھیر کیوں نہ ہوں سیاسی جماعتوں کواپنی مقبولیت کو بھی ہر صورت محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں کہہ لیں کہ آپ زندہ رہیں گے تو کچھ کریں گے۔ جب یہ کہہ دیا گیا کہ اگلے عام انتخابات کی قربانی دینی ہے تو پھر آپ کے ساتھ کون رہے گا اسی پست سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مقتدر حلقے اپنے مخصوص ذرائع سے ایسی خبریں چلوا رہے ہیں کہ شہباز حکومت توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوچکی۔ اسی سلسلے میں اہتمام سے شائع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف کے کارکردگی نہ دکھانے پر حکمران اتحاد اور متعلقہ حلقوں میں بہت سوں کو حیرت ہوئی ہے۔ افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی پرواز اور سٹہ کی وجہ سے ڈالر کی شرح میں غیرمعمولی اضافے پر کوئی حکومتی چیک نہیں ہے جس سے معیشت اور مارکیٹ کے رجحان کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ لگتا ہے کہ بیورو کریسی کے 
معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں رہے۔ وفاقی حکومت کے محکموں کی سروس ڈیلیوری پہلے کی طرح مایوس کن ہے۔ معیشت سنبھالی نہیں جارہی اور آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد بھی بہتری کے بجائے بدتر ہو تی جارہی ہے۔ اس رپورٹ کو کوئی بھی ہوش مند شخص غلط نہیں کہہ سکتا۔ یہ اپنی جگہ بہت بڑا سوال ہے کہ شہباز حکومت کی رٹ ختم کرنے کے لیے کس ادارے نے کیا کردار ادا کیا؟ جب حکومت کا گھیراؤ روز اوّل سے شروع ہوگیا تھا تو حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے خصوصا ًمسلم لیگ ن نے جوابی طور پر کیا حکمت عملی اختیار کی۔آنے والے دنوں میں حکومت پر جو بھی مصیبت ٹوٹی اس کی ذمہ داری”روایتی دشمنوں“ کے بجائے خود اس اتحاد میں شامل جماعتوں کی بے عملی پر بھی ہوگی۔ ابھی چند روز پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ایک تقریب میں گلہ کیا ہے کہ پنجاب میں پرویز الٰہی حکومت لانے کا درست فیصلہ دینے پر وفاقی حکومت ناراض ہوگئی۔ اسکا ردعمل سپریم کورٹ کے نئے ججوں کی تعیناتیوں کے موقع پر چیف جسٹس کے منتخب کردہ نام مسترد کرکے ظاہر کیا گیا۔ اس حکومت کو عدلیہ کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات رہے ہیں مگر مولانا فضل الرحمن کے سوا کوئی کھل کر نہیں بولا۔اب جب کہ عدلیہ نے ایک بار پھر اپنا موڈ واضح کردیا ہے تو آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر جواب نہ دینے کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ حکومت نے فاضل چیف جسٹس کی جانب سے عائد کیے گئے الزام کو تسلیم کرلیا ہے۔ جو حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنے جائز حقوق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتی وہ بائیس کروڑ عوام کے مفادات کا تحفظ کیسے کریں گی۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ورثے میں جو مسائل سونپ کر گئی موجودہ حکومت نے ان میں اضافہ ہی کیا ہے۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے سی پیک روک دیا تھا صورتحال اب بھی جوں کی توں ہے۔ ایک باخبر دوست چینی کاروباری افراد سے ہونے والے گفتگو کے تناظر میں بتا رہے تھے کہ گلہ کیا جارہا ہے کہ شہباز حکومت کا ایک وزیر سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا گیا لیکن اشارہ واضح ہے کہ وہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہی ہوسکتے ہیں۔ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کامیاب کاروباری شخصیت مفتاح اسماعیل مسلم لیگ ن کی خاطر بغیر کسی جرم کے جیل کاٹنے والوں میں شامل ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مقتدر حلقوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ نواز شریف کے دور حکومت میں جب وزیر خزانہ اسحق ڈار کو بھی منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ منصب مفتاح اسماعیل کو سونپا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے ایک طاقتور شخصیت مختلف محفلوں میں کہتی پائی گئی کہ مفتاح اسماعیل کی کارکردگی اسحق ڈار سے بہتر ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جاتے ہی مفتاح اسماعیل اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے تو ہر طرح سے فائدے میں رہتے مگر انہوں نے جیل قبول کرلی لیکن پارٹی نہیں چھوڑی۔ کراچی میں ایک قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب جیت سکتے تھے مگر حیرت انگیز طور پر مریم نواز ان کی مہم چلانے کے لیے نہیں گئیں۔ اب اگر سی پیک کے حوالے سے کسی تذبذب کا شکار ہیں تو یقیناً کہیں سے بہت زیادہ دباؤ ہوگا۔ دباؤ میں تو خود وزیر اعظم شہباز شریف بھی ہیں۔تاثر ہے کہ حکومت کی ایک کنپٹی پر بندوق اور دوسری کنپٹی پر عدالت کا ہتھوڑا دھرا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلند آہنگ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے قوم کو یقین دلاتے کہ پچھلی حکومت کا کیا دھرا عوامی مشکلات کا اصل سبب ہے۔ جب خود وزیر اعظم ہی مرجھانے ہوئے چہرے کے ساتھ طعنوں پر مبنی تقاریر کریں گے تو باقی سب کا کیا حال ہوگا۔ معاشی مسائل تو کسی طور جلد اور آسانی سے بہتر نہیں ہونے والے البتہ سیاسی عدم استحکام سے کسی حد فوری طور پر چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں تمام سیاسی جماعتیں متحرک تنظیمی سرگرمیاں شروع کردیں تو کم از کم اپنے کارکنوں کو دل برداشتہ ہونے سے روک سکتی ہیں۔عوام کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ پر جتنا انحصار بڑھائیں اتنا ہی زیادہ دلدل میں دھنستے جائیں گے۔سیاسی جماعتیں جتنا کمزور ہوں گی ملک اتنا ہی آمریت کے چنگل میں پھنستا چلا جائے گا۔ پھر جو انجام ہوگا وہ نوشتہ دیوار ہے۔

مصنف کے بارے میں