تہِ دل سے کلمہ پڑھو پھر وفا کا

تہِ دل سے کلمہ پڑھو پھر وفا کا

ہفتہ بھر کے سیاسی بھونچال کے جھٹکوں نے ملک بھر کو ہلا مارا۔ جمہوریت پر بلند آہنگ سماعت شکن تقاریر کرنے والوں نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹ نہ ہونے دینے کیلئے زمین آسمان ایک کر ڈالا۔سوشل میڈیائی دھماچوکڑی،پے درپے خطاب،لہراتے خط، دھمکیاں،تحریص و تخویف کے حربے، سازشی تھیوریوں کے گھن چکر، اسمبلی اجلاس نہ ہونے دینے کے ٹال مٹولی ہتھکنڈے… غرض کیا کچھ نہ آزمایا گیا! مگر…
 الٹی پڑگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
 دیکھا اس بیماریِ دل نے آخرکام تمام کیا
سپریم کورٹ کی غیر معمولی مداخلت نے آدھی رات کو عدالت کھلوا کر بالآخر متفقہ فیصلے کے تحت آئینی بحران سے نکالا۔ توہین عدالت کی کارروائی کے عزم سے بال بال بچت ہوئی اور عین آخری وقت معاملات طے پاگئے۔ حقائق سب کھل کر سامنے آگئے۔ تحریک انصاف خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں رہنے والے خیالی خوابی جنت میں شخصیت پرستی کے بخار میں تپتے مالیخولیا کا شکار اب بھی ہیں۔ 
10 اپریل 1988ء کو اوجڑی کیمپ میں اسلحے کے ڈپو سے جو دھماکے ہوئے وہ تادیر بھلائے نہ جاسکے۔ 10اپریل 2022ء رات گئے اعصاب شکن جنگ تحریک عدم اعتماد پر کامیابی کی مہر ثبت کر کے عمران خان حکومت کے اختتام کے دھماکے پر منتج ہوئی۔ جمہوریت’ آزادی کی نیلم پری‘ نے تگنی کا ناچ تمام قومی اداروں کو نچا رکھا تھا،بالآخر کوچہ اقتدار سے کوچ کرگئی۔تبدیلی کے روپہلے خواب جو قوم کی آنکھوں میں سجائے گئے تھے،ہونہار باصلاحیت لائق ٹیم کے جھانسے دے کر جو بلند وبالا عزائم کا اظہار ہوا۔ ساڑھے تین سال ایک سراب کے پیچھے دوڑتی قوم ہانپ ہانپ گئی۔ ان کے رخصت ہوتے ہی ہوش کھوتا گرتا روپیا فوراً سنبھل گیا۔ انڈیکس میں فوری 1700 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ اسلامی اصطلاحات کی جھوٹی رٹ لگا کر ملک سے اس کی نظریاتی شناخت ہر سطح پر چھینی گئی،کنٹینر والے ڈی جے کی سنگت میں ہونے والے دھرنوں جلسوں سے جو شروعات ہوئیں وہ جوں کی توں ناچتی گاتی تھرکتی 10اپریل تک شوبز کے حمایتیوں سمیت آج تک بدستور اسی ڈھب پر رہی۔ رمضان کی راتوں میں بھی کمی واقع نہ ہوئی۔ اگرچہ بیانیہ اسلامی موضوعات کی چھاپ لئے جھوٹی تسلی دیتا رہا۔ اب نوشتہ دیوار نہ پڑھنے کے نتیجے میں کپتان اور ٹیم ایک غیر متوقع جھٹکے سے گزر کر دستبردار ہونے پر مجبور ہوگئی ہے۔
 نیا سیٹ اپ نئے عزائم اور وعدوں کے ساتھ ملکی حالات کو عدم استحکام سے نکالنے اور معاشی بدحالی سے نجات دلانے کا دعویدار ہے۔ اس وقت یقینافوری رفوگری انہی محاذوں پر درکار ہے۔ ورنہ سری لنکا کا سنگین بحران ہمارے لئے عبرت کی مثال لئے ہوئے ہے۔ سیاسی ابتری میں مفاد پرست حکمران ٹولے کس طرح قوموں کا مستقبل گھن بن کر چاٹ جاتے ہیں، سری لنکا اس کی مثال ہے۔ 
ایندھن،بجلی،خوراک،اشیائے ضروریہ کی شدید قلت،لاکھوں عوام سڑکوں پر منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ نظریے کے تحفظ کیلئے پاکستان اپنی نظریاتی شناخت کی بنا پر اگرچہ ایک منفرد فارمولے کا حامل ہے۔ تاہم نظریے کے تحفظ کیلئے معاشی استحکام اور خود کفالت اہم سنگ میل ہے۔ کشکول سے نجات، FATF اور آئی ایم ایف کے شکنجوں سے آزادی، خودمختاری کے حصول کیلئے لازم ہے۔ غیر پیداواری اخراجات، بدعنوانی پر کڑا کنٹرول،کفایت شعاری اور خود حکمرانوں کا ایثار انقلابی اقدامات کا متقاضی ہے۔ اگر تقریروں کی دھواں دھاری سے قوم کا مقدر بدلنا ہوتا یا غیر ملکی ڈگری یافتگان امریکا یورپ کے درآمدی وزراء سے ترقی کی منزلیں سر ہوا کرتیں تو ان گزشتہ عمرانی سالوں میں دودھ شہد کی نہریں بہہ جاتیں۔نعرے اور جھوٹے لیبل نہیں،حقیقی صداقت وامانت درکار ہے۔ 
نعروں دعوؤں بھرے اس دور نے ڈالر 125 سے 188 روے پر پہنچا دیا۔ بجلی کی قیمت 60 فیصد بڑھی۔ صحت کارڈ کے غلغلے کے پیچھے ادویات اور علاج عام آدمی کی پہنچ سے باہر 400 فیصد ادویات مہنگی کرگیا۔ پاکستان کی آبادی گھٹانے کا یہ بالواسطہ سامان حکومت نے کر رکھا تھا۔ نئی حکومت کیلئے جشن منانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اتحادی جماعتیں اگر اپنے اپنے حصے بٹورنے اور خدانخواستہ وزارتوں کی بندر بانٹ میں الجھ گئیں تو قوم کو بند گلی میں پہنچادیں گی۔
 حکومت کو نوجوانوں کی طرف سے بھی ایک چیلنج درپیش ہے۔ کورونا کے سالوں میں تعلیم کا نا قابل تلافی حرج ہوا ہے۔ آن لائن تعلیم نے معیار تعلیم تباہ کر ڈالا ہے۔ نوجوانوں کو جلسوں، PSL کھیلوں اور تماشوں کارسیا بنادیا گیا ہے۔ انصافیوں کے ہاں بھرے پیٹ والی برگر کلاس نے ڈی جے اور مخلوط جلسوں کی لت میں مبتلا کر دیا ہے۔ مخلوط تعلیم ہر سطح پر رائج اخلاقی گراوٹ کا سامان لارہی ہے۔ ملکی ترقی کا انحصار باصلاحیت، محنتی، پرعزم ، اعلیٰ اخلاق و کردار والے نوجوانوں پر ہے۔ یہی قوم کا کل سرمایہ ہے۔ تعلیمی شعبے پر خصوصی توجہ دیجئے۔ اس کیلئے غیر ملکی تعلیمی مشیر اور مخصوص ایجنڈوں والی ورکشاپیں نہیں درکار۔ انہی عطاروں کی دوا دارو نے ہماری تعلیم کو جڑ بنیاد سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تعلیمی اداروں کو صرف خالص تعلیم کا گہواراہ بنایئے۔ اساتذہ کیلئے بھی اسناد اور لیاقت کے ساتھ اخلاق وکردار اور نظریاتی درستی بھی لازم ہے۔ تعلیمی اداروں سے سیر سپاٹے، پارٹیاں، ہلے گلے، کلچرل ڈے، موسیقی،ڈرامے نکال باہر کیے جائیں، ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر یہ اخلاق سوز (IBA کراچی کے واقعے کی مانند) تماشے بند کئے جائیں۔ جن مغربی ممالک کی مثالیں دیتے یہ نہیں تھکتے،وہاں تعلیمی ادارے صرف تعلیم کیلئے مختص ہوتے ہیں۔ سارے تماشے تعلیم گاہوں کی چاردیواری سے باہر کلبوں تکے محدود رہتے ہیں۔ سنجیدہ، باکردار،لائق اساتذہ لائیے،لباس کی حدود وقیود کی پابندی لاگو کیجئے، مخلوط تعلیم کو حتی الوسع ختم کرنے کا پروگرام بنایئے اگر تعلیمی ترقی مطلوب ہے۔ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی لت، موبائل کے نشے سے نکال کر کتب بینی سکھایئے۔یوں تو ہمارے سیاست دان بھی کتاب سے محروم ہیں، الا ماشاء اللہ!
ہمارے قومی زوال میں کتنا بڑا حصہ مقتدرین اور سیاسی کرداروں کی اسلام سے بے اعتنائی کا ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے۔ ماہ قرآن ہے،دنیاوی تعلیم کی شرح خواندگی کا غم تو لاحق ہوتا ہے لیکن دین سے بے بہرہ ہونا، آخرت سے بے خوفی، ذمہ دارانہ مناصب پر اللہ کے حضور جوابدہی کی ہولناکی سے لاعلمی ہمارے سیاسی کردار کی ابتری کی جڑ بنیاد ہے۔ تنہا تنہا قبر میں اترتے جانا ہے کوئی ہٹوبچو،چاہنے والوں کو محبوبیت، لائیکس اور مرمٹنے والے کارکن زندگی کے اس مرحلے میں جسے آکر رہنا ہے،کام نہیں آئے گا۔ مساجد رمضان میں خالی رہیں اور جلسے لبالب بھرے ہوں؟ رسمی افطار ڈنر بھی سیاسی خطاب کا پیرایہ لئے ہوں، سیرت سازی کا اہتمام کہیں نظر نہ آئے۔ کافر قومیں تو دنیاوی ترقی کے حصول کے نرے جمہوری،سیکولر پیمانے رکھ کر پنپ سکتی ہیں،مگر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔
کپتان کے دور میں قادیانیت کے پھیلتے اثر ورسوخ کو بھی لگام دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا دامن امریکا روس کشا کش سے بچ بچا کر سربلند آزاد خودمختار قوم کا تشخص اپنایا جائے۔ عمران خان نے بلاوجہ امریکی سازش کا پاکھنڈکھڑا کر کے اضحوکہ بنا ڈالا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق ان کا روس کی طرف لپکنا، جب روسی سفیر مغربی دنیا نکال باہر کر رہی تھی اس وقت یہاں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان سے وزیراعظم نے مظلوم بن کر ایسا غیر سفارتی بیان دلوایا جس کی زبان پاکستانی اور انصافیوں جیسی تھی ،جس پر صرف مہر گویا ثبت ان سے کروائی گئی۔ اب لگے ہاتھوں اپنی مہم جوئی کے ہاتھوں الجھے پھنسے روسی صدر پیوٹن نے مگرمچھ کے کچھ آنسو عمران خان کی نذر کئے یہ کہتے ہوئے کہ ’’بدقسمتی سے ملک (پاکستان) پر امریکا کا قبضہ ہوچکا ہے۔‘‘ (کیا پہلے روس کا قبضہ تھا؟ جو سدا بھارت سے پینگیں بڑھاتا رہا پاکستان کے مقابل!)
نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کے ابتدائی خدوخال میں غنیمت ہے کہ کشمیر‘ افغانستان اور فلسطین کیلئے آواز اٹھانے کا نکتہ شامل ہے۔ مضبوط،خودمختار، اسلامی پاکستان امت کے عوام کی بھی چاہت اور امنگ ہے۔ ملک کے فیصلہ کن طبقے نے مصنوعی طور پر عمران خان کو پروان چڑھانے، ساری جماعتوں سے ادھار،کرائے پر (بکاؤ مال) ارکان اکٹھے کرنے کا تجربہ کر دیکھا۔ پاکستان جس خستہ حالی کو جاپہنچا  ناتجربہ کار بلے بازوں کے ہاتھوں،وہ ایک بھاری سبق ہے۔ جان لیجئے، تسلیم کرلیجئے پاکستان کا خمیر ایمان اور اسلام پر اٹھا ہے۔ اس کی جڑ بنیاد میں تحریکِ آزادی کے شہداء کا خون ہے ، اس کی فلاح اور بقا سنجیدہ سیرت سازی اور کردار سازی،نظریے کی بنیاد پر منحصر ہے۔ اسے اپنے ایجنڈے پر سرِ فہرست لایئے۔
تہِ دل سے کلمہ پڑھو پھر وفا کا
دیا اک جلا کر سبھی کچھ بجھادو

مصنف کے بارے میں