شیر خوار پاکستانی ’بون میرو‘ عطیہ کرنے والا دنیا کا سب سے کم عمر ڈونر

 شیر خوار پاکستانی ’بون میرو‘ عطیہ کرنے والا دنیا کا سب سے کم عمر ڈونر

بینگالورو: پاکستان سے تعلق رکھنے والا آٹھ ماہ کا شیر خوار بچہ رایان ہڈیوں کا گودا عطیہ کرکے اپنی بڑی بہن کی جان بچانے والا بھارت کا سب سے کم عمر ڈونر بن گیا۔

آیان کی دو سالہ بہن زینیا انوکھی بیماری ’ہیمافاگوسائٹک لیمفوہسٹیوسائٹوسز (ایچ ایل ایچ) کا شکار تھی اور اس کا بون میرو غیر معمولی خلیات پیدا کر رہا تھا جو میرو کے نارمل خلیات کو نقصان پہنچا رہے تھے جس کا واحد علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ تھا۔

کامیاب آپریشن کے دو ماہ بعد اب دونوں بھائی بہن تیزی سے روبصحت ہورہے ہیں اور جلد اپنے والدین کے ہمراہ آبائی شہر ساہیوال آجائیں گے۔زینیا میں 11 ماہ کی عمر تک یہ بیماری ظاہر نہیں ہوئی تھی، لیکن پھر اسے اچانک تیز بخار رہنے لگا جس کا علان اینٹی بائیوٹکس سے بھی ممکن نہ ہوا۔تفصیلی طبی معائنے کے بعد زینیا کو ہڈیوں کے گودے کی بیماری لاحق ہونے کی تشخیص ہوئی جو اس کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتی تھی۔زینیا میں پیدائش کے وقت سے جزوی برصیت کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔

زینیا کے والد ضیا اللہ کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہمیں بتایا گیا کہ اس مرض کا علاج ممکن نہیں جس کے بعد ہم ناامید ہوچکے تھے، لیکن پھر ہمیں ایسے ہی ایک کیس کا نرایانا ہیلتھ سٹی (این ایچ سی) میں علاج کا پتہ چلا، ہم اس بات پر انتہائی خوش ہیں کہ ہم بھارت آکر اپنی بیٹی کا کامیاب علاج کراسکے جس پر ہم ڈاکٹروں کی پوری ٹیم کے شکر گزار ہیں۔‘ہسپتال داخل کرائے جانے کے بعد پہلے زینیا کی حالت کو مستحکم کیا گیا، جس کے بعد مختلف ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ ان کے آٹھ ماہ کے بھائی کا ’ایچ ایل اے‘ ان سے پوری طرح مماثلت رکھتا ہے۔تاہم رایان کی عمر انتہائی کم ہونے کے باعث ڈاکٹروں کے لیے یہ آپریشن انتہائی پیچیدہ تھا۔

سینئر کنسلٹنٹ اور ہسپتال میں پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی، آنکولوجی اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے سربراہ ڈاکٹر سنیل بھٹ نے کہا کہ ’ڈونر کے اعتبار سے یہ کیس انتہائی مشکل تھا اور چونکہ ڈونر ایک 8 ماہ کا شیر خوار بچہ تھا اس لیے ہمیں آپریشن کو اس کی پیچیدگی کے باعث دو مراحل میں مکمل کرنا پڑا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رایان نے بون میرو عطیہ کرکے ناصرف اپنی بہن کی جان بچائی بلکہ وہ بھارت کا سب سے کم عمر ڈونر بھی بن گیا ہے۔‘این ایچ سی میں سینئر کنسلٹنٹ ہیماٹولوجسٹ اینڈ کلینیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر شَرت دامودر نے کہا کہ ’ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم ناصرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے متعدد مریضوں کے علاج کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

زینیا کے والد ضیا اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان واپس پہنچ کر ہم ایک آن لائن پیج کے آغاز کا سوچ رہے ہیں، جہاں ہم اپنی کہانی لوگوں سے شیئر کریں گے، تاکہ پاکستان میں لوگوں میں اس بیماری اور اس کے ممکنہ علاج سے متعلق آگاہی پیدا ہوسکے۔‘