ممتاز سے مدھو بالا تک کا سفر!

ممتاز سے مدھو بالا تک کا سفر!

ممبئی:کہتے ہیں کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے اور کچھ چہرے تو اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ بھلائے نہیں بھولتے ۔شوبز کی دنیا میں حالات تھوڑے مختلف ہیں بعض اوقات آپکو کوئی چہرہ پردہ سکرین پر بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن شاید آپ اسی چہرے کو حقیقت میں دیکھیں تو آپ اسے اتنا خوبصورت نہ پائیں اور بالکل اسی طرح کچھ چہروں کی خوبصورتی کو تو کیمرہ بھی پوری طرح نہیں دکھا پاتا۔ماضی کی معروف داکارہ مدھو بالا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

مدھو بالا اپنی خوابناک آنکھوں اور حسن کی وجہ سے بہت مشہور تھیں۔لیکن جو لوگ ان کو حقیقی زندگی میں جانتے تھے ان کا کہنا ہے کہ سکرین مدھو بالا کے آدھے حسن کو بمشکل دکھا پاتی تھی۔مادھو کا اصل نام تو ممتاز تھا لیکن جب مدھو کی پہلی فلم بسنت ریلیز ہوئی تو اس وقت کی مشہور اداکارہ دیویکا رانی نے ان کا نام بدل کر مدھو بالا رکھ دیا۔

مدھو بالا کو اس دور میں ہالی ووڈ سے فلم کرنے کی پیشکش ہوئی تھی لیکن مدھو نے کام کرنے سے انکار کردیا تھا اور اپنے ساتھ گارڈ رکھنے کا نیا رحجان بھی مدھو نے ہی متعارف کروایا تھا۔کہا یہ جاتا ہے کہ مدھو فلم سائن کرتے وقت ساتھ اپنی مرضی کا ہیرو بھی سائن کرتی تھیں۔مدھو بالا کو اپنے حسن کی وجہ سے سلور سکرین کی ”وینس آف انڈین سینما“ کہا جاتا تھا۔مدھو بالا نے محض 36سال کی عمر میں وہ عروج دیکھا جو شاید ہی کسی اداکارہ کے حصے میں آیا ہو۔

حیدر آباد کی ایک مصنفہ خدیجہ نے کتاب ”آئی وانٹ ٹو لیو“ لکھی جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اتنی اچھی اور مشہور اداکارہ ہونے کے باوجود مدھو ہمیشہ وقت پر سٹوڈیو پہنچا کرتی تھیں اور وقت کی بہت پابند تھیں۔