سی پیک کا مالک کون؟؟

سی پیک کا مالک کون؟؟

چین،پاکستان اقتصادی راہداری بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کا مجموعہ ہے جو فی الحال پورے پاکستان بھر میں زیر تعمیر ہے۔ چین،پاکستان اقتصادی راہداری علاقائی رابطے کا ایک فریم ورک ہے۔ اس سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ ہوگا بلکہ ایران، افغانستان، بھارت، وسطی ایشیائی جمہوریہ کے خطے پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔


پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دعوی کیا کہ حکمرانوں (یعنی مسلم لیگ ن) نے پاک چائنا اقتصادی راہداری پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کی اصل خالق پیپلزپارٹی ہے۔


اسی طرح کے ملتے جلتے خیالات کا اظہار سابق صدر(ریٹائرڈ) جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کا ذکر کیا کہ حقیقت میں سی پیک منصوبہ ان کی وجہ سے آیا اور وہ ہی اس منصوبہ کے خالق ہے۔


میں سب سے پہلے ان دونوں اصحاب کو ایک بات کہنا جاتا ہوں اور وہ یہ کہ بلاول بھٹو جس روز بنا دیکھے کسی جلسے میں تقریر کردے اس روز میں سمجھوں گا کہ بلاول بھٹو واقعی ایک سمجھدار اور منجھا ہوا سیاست دان ہے۔بلاول بھٹو عمر کے جس حصے میں موجود ہے عام طور پر عمر کے اس حصے میں نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے نیم پاگل ہو جاتا ہے اور نوکری نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے۔ اس میں بلاول بھٹو کا قصور نہیں، قصور اس شخص کا ہے جواس کو تقریر لکھ کر دیتا ہے۔ بلاول کی عمر میں نوجوان پاکستان میں نوکری تلاش کر رہے ہوتے اور یہ صاحب اس عمر میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ،خیر خواب دیکھنے پر عمر کی کوئی قید نہیں۔


اب ذرا بات مشرف صاحب کی ہو جائے انہوں نے اپنے دور حکومت میں بہت سارے کام کیے لیکن میرا سوال ان سے یہ ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کیوں نہیں بنا سکے ؟ایک طرف وہ آرمی چیف بھی تھے اور اس ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی۔ مگر اس کے باوجود وہ پھر بھی سی پیک کریڈٹ ضرور لینا پسند کرتے ہیں۔


نواز شریف نااہل ہونے سے پہلے اور اس کے بعد ان کی حکمراں جماعت نے آج تک ہر اجتماع ،ہرجلسے، ہر پریس کانفرنس میں اس بات کا کریڈٹ لیا کہ سی پیک منصوبہ درحقیقت مسلم لیگ نواز اور حکمران جماعت کا منصوبہ ہے۔ اور اسی منصوبے کی بدولت پاکستان اور اس کے چاروں صوبوں میں خوشحالی آئیگی اور روزگار کے مواقع بہتر ہوں گے اور پاکستان ترقی کی منازل بہت تیزی سے طے کرے گا۔


یہاں پر جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ میری اس تحریر کا ہرگز مطلب سیاستدانوں کے ان سیاسی بیانوں کو موضوع بحث بنانا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کی منصوبہ کوئی بھی ہو کسی کی بھی حکومت میں شروع ہوا ہو اپنے نام کی تختی لگانا اور کریڈٹ لینے سے بڑھ کر سیاستدانوں کو عوام کے لیے صحیح معنوں میں سوچنا پڑے گا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے سے زیادہ اہم بات عوام کی خوشحالی اور اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا زیادہ ضروری ہے ۔میں اتنا سمجھتا ہوں کہ ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری اور عوام کو یہ باور کروانا ہے کہ فلاں کامیاب منصوبہ میرا ہے اور فلاح ناکام منصوبہ دوسری سیاسی جماعت کے کھاتے میں ڈال دینا اور پھر ناکام منصوبے پر بھرپور سیاست کرنا آج کل کے سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ آج کےسیاست دانوں کو عوام کی اور اس ملک کی خوشحالی اور امن سے کوئی سروکار نہیں، ان کی صبح اس بات اور اس سوچ سے ہوتی ہے کہ کس طرح سورج غروب ہونے تک دوسرے شخص یا دوسری سیاسی جماعتوں کو بھرپور ذلیل کیا جائے۔اور عوام سے ہمدردی اور ووٹ حاصل کیے جائیں۔ اور جن لوگوں سے ووٹ حاصل کرلئے ہیں انکو اگلے الیکشن تک بھرپور ذلیل کیا جائے کیا گیا۔


ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں بس اتنا جانتا ہوں کہ منصوبہ چاہے سی پیک ہو،یا میٹرو بس، کارخانے ہوں، یا ہسپتال ،یونیورسٹیز او ر پل تعمیر کرنے ہوں الغرض اس ملک کا انفراسٹرکچر ٹھیک کرنا ہو اور پھر ان میں سے کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے تو وہ منصوبہ درحقیقت کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ اس ملک کی 22 کروڑ عوام کا ہے اور درحقیقت ہر منصوبے کی طرح سی پیک کا مالک بھی کوئی سیاستدان نہیں بلکہ پاکستانی عوام ہے۔

سید شرجیل احمد قریشی

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا قطعا ضروری نہیں )