ملیالم فلم کے گانے میں آخر ایسا کیا ہے؟

ملیالم فلم کے گانے میں آخر ایسا کیا ہے؟

 انڈیا میں ملیالم فلم ’اورو آدار لو‘ کے اس گانے میں آخر ایسا کیا ہے جس سے ناراض ہو کر کچھ لوگوں نے فلم ساز کے خلاف شکایت درج کروائی ہے؟

تنازع جس گانے پر ہے اسے مقامی لوگ ’لوک گیت‘ مانتے ہیں اور یہ گانا 1970 کے عشرے سے مالابار کے علاقے میں خوشی کے مواقع اور خاص طور پر شادیوں میں گایا جاتا رہا ہے۔

لیکن ’اورو آدار لو‘ میں اسے نئے انداز میں موسیقی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اسی گانے ’مانکیہ مالاریا پووی‘ کے دوران ہی وہ سیکوئنس بھی فلمایا گیا ہے جس نے فلم کی جواں سال ہیروئن پریا پرکاش کو راتوں رات سٹار بنا دیا ہے۔

یہ ایک محبت کی داستان ہے جسے ایک سکول میں فلمایا گیا ہے۔ متنازع گانا ایک آڈیٹوریم میں گایا جاتا ہے اور یہ پیغمبر اسلام اور حضرت خدیجہ کی شادی کے بارے میں ہے۔

لیکن حیدرآباد میں شکایت درج کرانے والوں کا کہنا ہے کہ اس گانے سے پیغمبر کی شان میں گستاخی ہوتی ہے۔

تو آخر اس کے بول کیا ہیں؟ اس کا مفہوم کچھ ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

’حضرت خدیجہ، جو ایک پھول کی طرح تھیں، مکہ میں رہتی تھیں۔‘

’انھوں نے پیغمبر اسلام کو تجارت کے لیے بھیجا۔ جب پیغمبر واپس لوٹے تو وہ ( حضرت خدیجہ) شادی کرنا چاہتی تھیں، انھوں نے اپنی خادمہ کو بلایا اور نکاح کا پیغام ابوطالب کے پاس بھیجا۔۔۔ یہ خوشی کی بات تھی، ابوطالب نے رضامندی ظاہر کی۔۔۔ پھر شادی کا دن آیا، حضرت خدیجہ دلہن کی طرح سجیں اور پیغمبر دولہا بنے۔۔۔ اور اس بے مثال جوڑے کو سب نے مبارکباد دی۔۔۔‘

ٹوئٹر پر ایک شخص نے لکھا ہے کہ ’میں ایک ملیالی مسلمان ہوں اور اس گانے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔۔۔ یہ ایک پرانا ماپیلا(مالابار کے مسلمانوں کا) گانا ہے اور خوشیوں اور خاص طور شادیوں کے موقع پر گایا جاتا ہے۔۔۔ اس میں بہت مہذب انداز میں دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔۔۔ اور اس کے ’بول‘ کی خوبصورتی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھی ملیالی ہوں۔‘

فلم ساز عمر لولو کا کہنا ہے کہ یہ گانا پیغمبر اسلام کی شادی کے بارے میں ہے اور اس میں کوئی توہین آمیز بات نہیں ہے۔ پولیس نے مقدمہ مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں قائم کیا ہے۔

اخبار دی ہندو سے بات کرتے ہوئے حیدرآباد پولیس کے نائب کمشنر سید فیصل نے کہا کہ فلم کے اداکاروں کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی گئی ہے لیکن شکایت کرنے والوں کو گانے کی منظرکشی پر بھی اعتراض ہے۔ پولیس سے شکایت کرنے والوں میں حیدرآباد کے ظہیرالدین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بنیادی طور پر ایک نظم ہے جس نے ایک لوگ گیت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ان کے مطابق ’اس گانے کو اس انداز میں نہیں فلمایا جانا چاہیے تھا۔۔۔سکرین پر ایک لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ اشارے کر رہی ہے (اور بیک گراؤنڈ میں یہ گیت بج رہا ہے)۔‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ فلم کے خلاف نہیں ہیں لیکن یا تو یہ گانا بدلا جائے یا اس پر پابندی لگائی جائے۔

ٹوئٹر پر ایک شخص رشید کپن نےلکھا ہے کہ ’ہندو اور مسلم قدامت پسندوں کا دماغ ایک ہی طرح چلتا ہے۔۔۔ اس گانے کے خلاف شکایت اس کی ایک مثال ہے۔۔۔ یہ گانا 40 سال سے کیرالہ میں گایا جاتا ہے اور کبھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘

ٹوئٹر ہینڈل انکاگنیٹو نے لکھا ہے کہ ’کیرالہ کے مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہے لیکن جو لوگ ملیالم نہیں جانتے وہ اعتراض کر رہے ہیں۔‘ (کیرالہ کی 25 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے)

اس گانے کو جس انداز میں فلمایا گیا ہے، اس نے پریا پرکاش کو انٹرنیٹ پر ایک سپر سٹار بنا دیا ہے اور گانے کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔