معیشت پاتال میں اور بے حسی عروج پر

معیشت پاتال میں اور بے حسی عروج پر

اسمبلیوں کی تحلیل کا صدمہ، الیکشن سے بچنے کے حربے، بلدیاتی ووٹ کی بے حرمتی، سیاسی انجینئرنگ اور جمہوریت کی رَٹ۔
ملک کی منہ کے بل گری معیشت کے لیے پوری دنیا سے دس ارب ستاون کروڑ ڈالر اور دیگر تھوڑی بہت امداد کے اعلان سے لڈیاں ڈالنے والی حکومت کو کہیں سے چلو بھر پانی بھی مانگ ہی لینا چاہیے۔ مجھے حیرت ہے کہ ملک کو دس مہینوں میں جاں کنی کے عالم میں پہنچانے والے حکمران طبقے کی پیشانی پہ کوئی بل نظر آتا ہے نہ دور دور تک شرمندگی کا کوئی احساس۔ اسحاق ڈار صاحب کو جس طرح معاشی مسیحا بنا کے پیش کیا جا رہا تھا وہ تو اکنامک ہٹ میں بھی ثابت نہ ہوئے۔ حکمرانوں کے حلقوں میں ملک کی طرف سے اب بھی اطمینان کی لہریں یوں گردش کر رہی ہیں جیسے ہر طرف ابرِ رحمت کی بوندیں برس رہی ہوں۔ بائیس کروڑ آبادی کا ملک جس میں دنیا کے بہترین موسم، زرخیز زمینیں اور معدنیاتی خزانے درجنوں ملکوں سے زیادہ ہوں آج پچھتر سال بعد دنیا بھر کے آگے کشکول اٹھائے ترلے کرتا پھرتا ہے اور بیس بیس سال حکومتیں کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہنما سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ اقتدار کہیں پاکستان کے عوام کے پاس نہ چلا جائے۔ اس حقیقت کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن تاریخ کی انمٹ گواہی روز ِ روشن کی طرح پوری وضاحت کے ساتھ ثابت کر چکی ہے کہ یہ پورا حکمران ٹولہ یا تو بدنیت رہا ہے یا اتنا نالائق کہ ایسے خوبصورت اور معصوم وطن کو زمانے کے گرم و سرد سے بچا نہیں سکا۔ بلکہ اب تو یہ بھی واضح ہو گیا ہے اقتدار پرست سیاست دانوں نے مل کے لوٹ مار بازار گرم کر رکھنے کے سوا کبھی کچھ سوچا ہی نہیں۔ بہترین جغرافیائی پوزیشن اور خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی و اقتصادی صورتحال سے بھی اسی لیے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا کہ ان کے پیش نظر ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کبھی رہی ہی نہیں۔ کیا اس نازک ترین صورتحال میں بھی کوئی ادارہ یا فرد اس سنجیدگی کا دعویٰ کر سکتا ہے جس کا تقاضا حالات کر رہے ہیں۔ ملکوں 
اور قوموں کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے گہری دانائی اور بھرپور سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان میں یہ ساری توجہ صرف ملک کو ابتری کا شکار کرنے کے پر ہی مرکوز رکھی جاتی رہی ہے۔ جمہوریت، جمہوریت کی رٹ لگانے والے طوطے ہمیشہ دھوکے کی جمہوریت عوام پر مسلط کرتے رہے جس کے نتیجے میں ملک دن بہ دن خسارے میں اور حکمران طبقے کا بزنس سرپلس میں جاتا رہا۔ اسحاق ڈار نے جو تیر مارنا تھا مار لیا اب باقی تلوار حمزہ شہباز چلائے گا۔ مریم نواز شریف گھوڑے دوڑائیں گی اور نواز شریف ہاتھی پر بیٹھ کے تشریف لائیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اگر صرف شریف اور زرداری خاندان کی دولت کا تخمینہ لگایا جائے تو پاکستان جیسے کئی ملکوں کے فارن ریزروز سے کہیں زیادہ نکلے گی۔ پاکستان کی معیشت کا گلہ دبوچنے والے حکمرانوں کی نیک نیتی کو اس بات سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ آج تک اس ملک پاکستان کے لیے ان کی جیبوں سے پھوٹی کوڑی برآمد نہیں ہوئی جس پر حکمرانی کی برکت سے ان کا شمار دنیا کے دولتمند خاندانوں میں ہوتا ہے۔ پاکستانی عوام کی یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہو سکی کہ غریب ملک کے دولتمند حکمران کبھی کسی مشکل وقت میں عملی طور پر بھی کھڑے نظر آئیں بلکہ مشاہدے میں ہر بار یہی آیا ہے کہ زبانی جمع خرچ اور آنیاں جانیاں دکھا کے چیریٹی پروگرامز کو بھی ذاتی منافعوں میں تبدیل کر دیا جاتا رہا ہے اور اب پاکستان کے لاوارث ہونے کا احساس اس حد تک تقویت پکڑ چکا ہے کہ عوام مایوس ہو کر کوئی اور راستہ اختیار کرنے کی سوچ پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جس ملک میں شہباز شریف صاحب جیسے اینٹی انقلاب اور ذاتی مفادات کے نظریے پر جم کر کھڑے لیڈر حبیب جالب کی نظمیں گنگناتے ہوں وہاں کسی بھی ایسے لیڈر سے صرف اور صرف عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کی توقع ہی کی جا سکتی ہے۔
معیشت کا پہلا اشاریہ فی کس آمدنی اور انفلیشن کے درمیان توازن کے تجزیہ کا حاصل ہوا کرتا ہے۔ دوسرا اشاریہ ملکی و قومی پیداوار اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے، تیسرا اشاریہ معاشی خود انحصاری کا گراف اور واجب الادا قرضوں کا تخمینہ ہوتا ہے۔ جو حکومت یا حکومت کے ماہرین معیشت ان اشاریوں کو یکسر نظر انداز کر کے گداگری سے حاصل کی گئی مونگ پھلی پر اکتفا کر کے بیٹھ جائیں اور اقتصادی بحران سے نکلنے کی نوید سناتے ہوئے ساری توجہ اپنے اقتدار کے تسلط کو جاری رکھنے مرکوز رکھیں تو یہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ کوئی دھوکے میں نہ رہے۔ یہ لاوارث ملک ہے اور یہ قوم لاوارث قوم ہے دہشت گردی کی چند وارداتوں سے ہی دبک کر بیٹھ جائے گی اور اس کا سارا دھیان ملکی بقا اور تحفظ سے ہٹ کے اپنی جان بچانے کی طرف مبذول ہو جائے گا۔ اللہ ہمارے جیسے حکمران انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کو بھی عطا فرمائے۔
”وطن کا نوحہ“
اے مری سرزمیں 
تجھ کو کس عہد کی
بد نظر کھا گئی
تو ستمگر کے نرغے میں کیوں آ گئی
تیری منڈیر پر شام ِ غم چھا گئی
تجھ پہ اپنی ہی قسمت ستم ڈھا گئی
تیرے دشمن عزیزوں کے بہروپ میں 
تیری دستار جوتوں سے باندھے
مرے سامنے دندناتے پھریں 
تیرے شام و سحر زخم کھاتے پھریں 
اے مری سرزمیں 
کس نے تیرے چمن طے شدہ ڈاکووں کے حوالے کیے
کس نے آباد شہروں میں جالے کیے
تو بتا تو سہی
کس نے اشکوں سے آنکھوں میں چھالے کیے
جھوٹ کی فصل کس کس نے بوئی تو کیوں 
تیری مجبور تاریخ روئی تو کیوں 
کچھ بتا تو سہی
تیرے دریاؤں میں آگ کس نے بھری
بادلوں پر سیہ دھوپ کس نے دھری
تجھ پہ پھولوں کی رُت میں خزاں آ گئی
تجھ کو کس عہد کی بد نظر کھا گئی
اے مری سر زمیں