بیری کا درخت اور ملیریا بخار۔۔۔

Sajid Hussain Malik, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ہمارے گھرانے سمیت گاؤں کے اور گھرانوں میں شرک اور بدعات سے دوری اور صحیح اور دینی عقائد پر کاربند ہونے کا رجحان کیسے پیدا ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک پوری داستان ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ کریم کے کرم سے پچھلی صدی کے پچاس کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ہمارے گاؤں میں سرخ و سپید چہرے سیاہ گھنی داڑھی، لانبے قد اور بارعب شخصیت کے مالک ایک عالم دین، محلے کی ایک مسجد کی امامت اور واحد مرکزی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے چند سال تک قیام پذیر رہے۔ مولانا عزیز اللہ ہزاروی ان کا نام اور وہ دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ محلہ رجگان کے ایک انتہائی نیک نام، زہد و تقویٰ کے مالک صاحب کردار بزرگ راجہ بوستان خان مرحوم جو گاؤں کے لوگوں میں جہالت اور دینی تعلیم کی دوری کی بنا پر موجود شرک اور بدعات کے خاتمے کو اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ وہ مولانا عزیز اللہ ہزاروی کی گاؤں میں تشریف آوری کا محرک بنے۔ اُن کا خیال تھا کہ مولاناعزیز اللہ ہزاروی کے آنے، محلے کی مسجد کے امام کے طور پر فرائض سر انجام دینے، واحد مرکزی جامع مسجد میں جمعتہ المبارک کا خطبہ دینے اور بچوں کو قرآنِ پاک پڑھانے سے شرک اور بدعات کو ختم کرنے کے اس مشن کو تقویت ملے گی۔ یقینا ایسا ہی ہوا۔ مولانا عزیز اللہ ہزاروی اللہ کریم انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے صبح فجر کی نماز کے بعد روزانہ مسجد سے کچھ ہٹ کر ایک بڑے لمبے کمرے کے کچے فرش پر جہاں جنگلی گھاس کا ستر بچھا ہوتا تھا، گاؤں کے بچوں کو جن میں زیادہ تر سکول جانے والے بچے ہوتے تھے اور میں بھی ان میں شامل تھا، ناظرہ قرآنِ پاک پڑھایا کرتے تھے۔ ظہر کی نمازکے بعد وہ مسجد میں ہی قرآنِ پاک کا سبق دیا کرتے تھے۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان ہی مسجد سے کچھ فاصلے پر اپنی چھوٹی سی رہائش گاہ پر کچھ بڑی عمر کے لڑکوں کو جو میٹرک یا اس سے اُوپر کی کلاسوں میں پڑھتے تھے کو قرآنِ پاک اور دینی تعلیم کا درس دیا کرتے تھے۔ یہ کوئی باقاعدہ کلاسز نہیں ہوتی تھیں تاہم ان سے استفادہ کرنے والوں میں صوفی ڈاکٹر ملک محمد اسلم مرحوم، صوفی محمد امیر مرحوم، ملک امیر داد مرحوم، محمد اختر صاحب اور ملک مقصود صاحب، راجہ ذوالفقار صاحب مرحوم اور حاجی ملک محمد نواز مرحوم وغیرہ کے نام میرے ذہن میں آ رہے ہیں۔ 
حضرت مولانا عزیز اللہ ہزاروی کی ہمارے گاؤں میں آمد اور قیام سے یقینا ہمارے گاؤں میں تبدیلی آئی۔ صحیح دینی تعلیمات اور راست عقائد کا شعور پیدا ہوا۔ قادیانیت (مرزیت) کے فتنے سے آگاہی حاصل ہوئی۔ میری عمر چھوٹی تھی لیکن جمعۃ المبار ک کی نماز میں وہ جو خطبہ دیا کرتے تھے اس کے بعض الفاظ اب تک میرے حافظے میں موجود ہیں۔ میری بد نصیبی کہ میں حضرت مولانا عزیز اللہ ہزاروی مرحوم سے پورا قرآنِ پاک ناظرہ نہ پڑھ سکا۔ کچھ ہی پارے پڑھے اور انہیں سنائے ہونگے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ میں ان سے قرآنِ پاک پڑھنے کے لیے باقاعدگی سے نہیں جا پاتا تھا۔ اکثر ناغے کر دیا کرتا تھا۔ وہ ناغے کرنے والوں کو پیٹھ پر تھپڑ مار کر سزا بھی دیا کرتے تھے۔ میرے ساتھ اُن کی یہ مہربانی کہ مجھے جسمانی طور پر کمزور گردانتے ہوئے اکثر مجھے معاف کر دیا کرتے تھے۔ مولانا عزیز اللہ ہزاروی ایک بڑے اچھی طبیب اور حکیم بھی تھے۔ ان کے بیوی بچے نہیں تھے اور وہ مسجد کی طرف سے ملی ہوئی پتھروں سے بنی دو تین کمروں کی بنی رہائش گاہ پر اکیلے ہی رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ صبح ناظرہ قرآنِ پاک پڑھانے کے بعد وہ چائے جو غالباً راجہ بوستان مرحوم کے گھر سے آتی تھی کے موٹے موٹے گھونٹ بھر کر ناشتہ کیا کرتے تھے۔ ہم لوگوں کی بد نصیبی کہ وہ ہمارے گاؤں میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے۔ شائد وہ چار یا پانچ سال رہے ہوں گے۔ اس دوران قادیانیت کے فتنے سے آگاہی بھی حاصل ہوئی اور قادیانیوں کو کافر، مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے ان کے سخت مؤقف کے بارے میں بھی ایک دو واقعات سامنے آئے۔  ہمارے گاؤں کے راجہ خاندان کے ایک گھرانے جس کی گاؤں میں رشتہ داریاں اور وسیع  تعلقات تھے نے مرزائیت اختیار کر رکھی تھی۔ راجہ خاندان کے رشتہ دار گھرانے میں ایک شخص فوت ہوا تو مرزائی گھرانے کا سربراہ اس کے جنازے میں شرکت کے لیے اس کے جنازے میں پہنچا۔ حضرت مولانا عزیز اللہ ہزاروی نے اسے دیکھا تو اسے جنازہ گاہ سے نکل جانے کو کہا کہ تم کافر و مرتد ہو اور ایک مسلمان کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس پر کچھ لے دے ہوئی۔ مرزائی خاندان کے رشتہ داروں نے احتجاج بھی کیا لیکن مولانا عزیز اللہ ہزاروی  مرحوم و مغفور اپنے برحق مؤقف پر اس طرح ڈٹے رہے کہ گاؤں اور آس پاس کے دیہات سے جنازے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو بھی یہ پیغام مل گیا کہ مرزائی جھوٹے نبی کے پیروکار، کافر اور مرتد ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایسا ہوا کہ مرزائی راجہ گھرانے کا سربراہ فوت ہوا تو اس کے جنازے میں اس کے ہم عقیدہ چند مرزائی ہی شریک ہوئے  جبکہ اس کے قریبی مسلمان گھرانے کے افراد نے اس کے جنازے میں شرکت سے اجتناب کیا۔ 
جیسا میں نے اُوپر کہا مولانا عزیز اللہ ہزاروی موحوم زیادہ عرصہ ہمارے گاؤں میں قیام نہ کر سکے۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ ماشاء اللہ وہ دیوبند سے فارغ التحصیل بہت بڑی علمی اور دینی شخصیت تھے جبکہ ہمارے گاؤں میں اس وقت کوئی دینی مدرسہ یا دارالعلوم نہیں تھا جہاں طالب علم ان سے ان کی علمی حیثیت کے مطابق استفادہ کرتے اس طرح انہوں نے باہمی مشاورت اور رضامندی سے ہمارے گاؤں سے فراغت حاصل کر لی۔ کئی سال بعد پتہ چلا کہ انہوں نے لاہور میں یونیورسٹی گراؤنڈ کے جنوب مغربی کونے سے ملحقہ ایک چھوٹی سی مسجد بنا لی ہے یا پہلے سے بنی مسجد میں نماز پڑھاتے اور جمعہ کا خطبہ اور درس قرآن دیتے ہیں۔ اتفاق کی بات 1967-68ء کے دوران میں نے B.Edکے لیے سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور جو لوئر مال روڈ پر سنٹرل ماڈل سکول کے عقب اور ضلع کچہری لاہور اور داتا دربار سے ملحق ہے اور جسے آج کل غالباً کالج آف ایجو کیشن کہا جا تا ہے داخلہ لیا۔ اس دوران میں ان سے ملنے کے لیے گیا تو وہ مجھے مطمئن اور ایک لحاظ سے آسودہ نظر آئے کہ انہوں نے چھوٹی سی مسجد کو نا صرف وسعت دے دی تھی جہاں پنجاب سول سیکرٹریٹ سے وابستہ سرکاری ملازمین نماز پڑھنے آتے تھے اور وہ انہیں دین کی تعلیمات سے بھی آگاہ کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے طالب علموں کے لیے ایک مدرسہ بھی قائم کر رکھا تھا۔ مولانا عزیز اللہ ہزاروی مرحوم کو جاننے اور ان سے براہ راست فیض یاب ہونے والے میرے گاؤں کے شائد اِکا دکا لوگ ہی اب اس دنیا میں موجود ہونگے لیکن انہوں نے شرک اور بدعات کے خاتمے اور رد قادیانیت کے ضمن میں ہمارے گاؤں میں جو ابتدا کی تھی اس کے اثرات ماشاء اللہ نمایاں ہو کر اب ہمارے گاؤں میں موجود ہیں۔ یہ شائد ان کی تعلیمات اور وعظ و نصیحت کا اثر تھا کہ میرے ان پڑھ اور ایک لحاظ سے جاہل اور وہم تشکیک کا شکار مرحوم والدین بھی شرک و بدعات سے دور ہی نہ ہوئے بلکہ ہمارے گھر کے صحن میں بیری کے  بوڑھے اور پرانے درخت کو جو ہمارے گھر کی پہچان تھا کٹوانے پر تیار ہوئے۔