اردو میں لسانی تحقیق

Asif Anayat, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

حکومت کے پٹرولیم میں بجٹ کے بعد بھی حالیہ ظالمانہ اضافے اور وفاقی وزیر گنڈا پور کے شعور پر چار حروف بھیجنے کے بعد عرض ہے۔ لسانیات کی تاریخ، تحقیق، ماخوذ اور اہمیت پر کوئی دستاویز پڑھنے کی خواہش تھی مگر وطن عزیز میں دستیاب نہ تھی کہ عصر حاضر کی نوجوان محققہ، ادیبہ دانشور، پروفیسر محترمہ فائزہ بٹ کی کتاب ”اردو میں لسانی تحقیق“ ہاتھ لگ گئی۔مصنفہ نے جن مراحل سے گزر کر اپنی یہ تحقیق ترتیب دی وہ پڑھ کر ہی روح کا نپ جائے کہ جاگنے کو سونے اور سونے کو جاگنے کے ساتھ کئی مہینے ملائے رکھا۔ انہوں نے کتاب کا انتساب اپنے استاد جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور ان کے بعد اپنے والد محترم جناب محمد لطیف بٹ صاحب کے نام کیا۔ بہرحال مصنفہ ادیبہ محققہ نے بہت عرق ریزی کے ساتھ زبان اور دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی تاریخ اور ادوار بیان کیے۔ باقاعدہ حوالہ جات دیے اور نقطہئ ہائے نظر بیان کیے جس میں الہامی، جسمانی اور دماغی حتیٰ کہ غنائی کیفیت کو زبان اور بامقصد معنی دینے تک کی بات کی ہے۔ مذہب کی تاریخ، یونان کے فلسفی، مغرب کے مستشرقین غرضیکہ کے جتنی زبانیں اور جتنے مکتب ہائے فکر ہیں وہ اپنے اپنے دعوے کو قدیم ترین اور بنیادی دعویٰ قرار دیتے ہیں۔ عربی، عبرانی، سنسکرت، آریائی حتیٰ کہ اشاروں کنایوں سے حرکیت اور حرکیت سے غنائی اور غنائی سے بامقصد الفاظ کو زبان میں ڈھلنے تک کے سفر کو موضوع بحث بنایا۔ 
جس میں لسان اور لسانیت، مبادیات اور روایات زبانوں کی صوری اور نسلی تقسیم، خاندان اور علاقائی تقسیم شرق شناسی، یاشرقیات، مستشرق قواعد نگار اردو لسانیات کی ابتدا و ارتقا اور مجموعی نظریات، نیم سائنسی نظریاتگی، لسانیات پر مبنی نظریات، لغت، مباحث، لغت نویسی، قواعد، تدوین لغت کے محرکات زبان کی نظری اور ارادی تشکیل، جسمانی حرکیات اور ذہنی اسباب۔جس میں دنیا کی لسانیات اور مستشرقین، محققین اور علماء کے افکار کا تذکرہ اور تجزیہ کیا گیا۔ 
کیونکہ کسی بھی زبان کی اصل اور بنیاد پر تحقیق کے حوالے سے جدید لسانیات کے مسلمہ اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس زبان کے بنیادی لسانی سرمائے میں سے سرمایہئ الفاظ کے بجائے اس کے صرفی و نحوی قاعدوں اور صوتیات کو زیر بحث لایا جائے۔ لسانی تحقیق میں زبان کے ڈھانچے میں اوپر سے منڈھی ہوئی کھال یا جھلی کی حیثیت رکھنے والے عام مفرد یا مرکب ’الفاظ مانعہ‘ (جیسے گھوڑا، پلنگ، پنسل، کتاب وغیرہ) کی اہمیت ’تجارتی لین دین‘ سے زیادہ نہیں ہوتی، لہٰذا انہیں نظر انداز کر کے اس سلسلے میں زبان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے ’الفاظ عامہ‘ (اسما، افعال، ضمائر، حروف ربط وغیرہ)، زبان کی بنیادی آوازوں / مادوں اور صرفی و نحوی قاعدوں کو دیکھنا چاہیے کہ کس زبان کے ہیں اور ان کا ارتقائی سلسلہ آس پاس کی کس قدیم اصلی زبان سے جا ملتا ہے۔ 
زبان کی اصل اور اساس پر تحقیق کے حوالے سے زبان کے سرمایہئ الفاظ کے برعکس صرفی و نحوی قاعدوں اور صوتیات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے محققین کا بیان ہے کہ کسی زبان کے ماخذ کی تلاش میں از بس ضروری ہے کہ اس کے صرفی و نحوی قاعدوں اور صوتی تبدیلیوں کی ارتقائی و تقابلی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس زبان کا تجزیہ کیا جائے۔ 
قواعدی ساخت کے اعتبار سے دنیا کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ز بانوں کے رشتے ان کے اختیاری و لازمی تجزیے سے معلوم اور متعین کیے جاتے ہیں۔ بنیادی اور تعمیری الفاظ میں مماثلت، حروف، ربط کی مشابہت اور صرفی و نحوی قاعدوں میں یکسانی کی نوعیت کی بنا پر ایک زبان دوسری زبان کی قریبی یادور کی رشتے دار قرار دی جا سکتی ہے۔ زبان دراصل انہی بنیادی لسانی خصوصیات کا نام ہے۔ انہی سے زبان کی بنیادی انفرادی ساخت مترشح ہوتی ہے جس سے وہ دوسری زبانوں سے ممتاز ہو کر ایک مستقل، منفرد اور آزاد زبان کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ ایک ہی خاندان کے افراد ہونے کی بنا پر کچھ قریبی زبانوں میں ان بنیادی لسانی خصوصیات کے تجزیے کے بغیر زبان کی ساخت متعین کرنا، اس کے ماخذ تک رسائی کی کوشش کرنا اور اس میں واقع ہونے والی تاریخی تبدیلیوں کا پتا لگانا گم راہ کن نتائج کا ذمے دار ہو سکتا ہے۔ دخیل الفاظ زبان کی ساخت پر اثر انداز نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کی مدد سے زبان کے تعمیری دور معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ 
بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کے محققین نے تاریخی حالات کے تناظر میں اردو کو کسی نہ کسی خاص خطے کی پیداوار قرار دیا۔ ان سے قبل اہل علم نے اردو کو ایک مخلوط زبان قرار دے کر ان گنت قیاسی نظریاتی کا پرچار کیا، مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام اہل علم ونظر نے اردو زبان کی آفرینشن اور نشوونما کے حوالے سے نظریات قائم کرتے وقت ناصرف اردو کے لسانی سرمائے کے مختلف عناصر ہی کو یک سر نظر انداز کر دیا بلکہ اس کی صرف و نحو اور صرتی خصوصیات کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ حال آنکہ اردو زبان کے ماخذ کی تلاش میں اسی پہلو کو باقی سب امور پر فوقیت حاصل ہونا چاہیے تھی۔ بعد میں آنے والے محققین نے صرفی نحوی قواعد، صوتی خصوصیات، لفظوں کی ساخت اور لسانی اشتراک کی راہ نمائی میں اردو زبان کے منبع تک رسائی میں اپنے تحقیقی سفر کی بنیاد رکھی۔ اس ضمن میں ایسے متعدد نظریات سامنے آئے جن کے توسط سے قدیم ویدک بولی، ہریانی، مہاراشٹری، دراوڑی اور منڈا زبانیں اردو کے ماخذ کی حیثیت سے نا صرف زیر بحث لائی جاتی رہی ہیں بلکہ مباحث کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس طرح قدیم نظریہ سازوں کے نظریات ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں اسی طرح اردو کی لسانی تشکیل اور اس کے آغاز سے متعلق جدید نظریات میں بھی ہم آہنگی اور اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ اس پر از دیادیہ کہ اکثر محققین کے ہاں انفرادی طور پر زمانہ وار اختلافی نظریاتی وبیانات بھی موجود ہیں جن سے ان کی لسانی فکر میں بتدریج تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جا سکتاہے۔ البتہ اس حوالے سے بعد ازاں سامنے آنے والے حقائق پر مبنی ان محققین کا آخری بیان ہی سندو اہمیت کا حامل قرار دیا جائے گا۔ 
اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے جدید لسانیاتی بنیادوں پر قائم نظریاتی کو نوعیت کے اعتبار سے دو اہم زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (1) اردو آریائی الاصل زبان(2) اردو دراوڑی الاصل زبان 
اردو آریائی الاصل زبان: اس حقیقت سے قطع نظر کہ محققین اردو کے نظریات و بیانات زبان اردو کے عہد آفرینش کے تعین میں متضاد ہیں، تاہم محققین و ماہرین کا ایک بڑا گروہ اردو کو بلاشبہ آریائی الاصل زبان تسلیم کرتا ہے۔ ان علما کی تحقیق اردو زبان کے آغاز کو ظہور اسلام سے بہت پہلے آریا اقوام کے ورودِ ہندوستان کے وقت تک لے جاتی ہے۔ ”ان کے مطابق اردو ایک آریائی زبان ہے جو ہندوستان کی ایک قدیم پراکرت سے نکلی ہے اور پراکرت یا تو سنسکرت سے ابھری ہے یا اس کی کسی ایسی معاصر بولی سے مشتق ہے تو سنسکرت ہی کی طرح خالص آریائی تھی“۔ 
اردوکو آریائی الاصل زبان تسلیم کرنے والے اہل علم کے لسانی افکار کا تدریجی جائزہ کرنے والے محققین میں سے اکثر کا ذکر ’عمومی قیاسی نظریات‘ اور ’نیم سائنسی نظریات‘ کے عنوانات کے تحت بھی تجزیہ سے گزرا۔ ذیل میں فقط ان ماہرین لسانیات کے نظریات اور لسانی بیانات کے مطابق اردو زبان کو آریائی النسل تسلیم کرتے ہوئے اس کی ابتدا کو مختلف ادوار اور دیگر آریائی زبانوں اور بولیوں سے منسوب کرتے کرتے کہیں بالواسطہ تو کہیں براہ راست ’کھڑی بولی‘ تک پہنچتے ہیں۔ اردو کو ویسٹرن کی دین سمجھنے والے حقائق کے برعکس ہیں۔ انہوں نے ہندوستان پر حکمرانی کی خاطر اردو سیکھی۔