اپوزیشن کے تحفظات کا جائزہ لینے کیلئے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ

اپوزیشن کے تحفظات کا جائزہ لینے کیلئے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ
کیپشن: اپوزیشن کے تحفظات کا جائزہ لینے کیلئے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے پایا ہے کہ ایک دوسرے کے پارلیمانی لیڈرز کا احترام کیا جائے گا اور ان کی تقاریر میں غیر قانونی طریقے سے مداخلت نہیں کی جائے گی۔ 

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران ایوان میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد حکومت نے اپوزیشن سے رابطہ کیا جس کے بعد اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ اس میں اپوزیشن کی جانب سے دس جون کو ایوان سے منظور کئے جانے والے قوانین کو عجلت قرار دے کر اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا جبکہ حکومت کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ قانون سازی آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے قانون کے مطابق کی گئی ہے جس پر اس کے جائزہ کے لئے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ان اعتراضات کا جائزہ لے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے چھ چھ اراکین شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ کمیٹی قانونی طریقہ کار پر بھی غور کرے گی جبکہ اپوزیشن ان بلوں پر غور کے لئے کمیٹی کے قیام کے بعد عدم اعتماد کی تحریک واپس لے گی۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے رانا ثناء اللہ نے اس کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سپیکر کے چیمبر میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے ہوا ہے وہ اسی طرح ہے وہ اس کی توثیق کرتے ہیں۔

رانا تنویر حسین نے کہا کہ ہم ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کے لئے تحریک تیار کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ حکومتی نمائندوں سے ملاقات میں اس معاملے پر غور کیا گیا جو قانون سازی دس جون کو کی گئی اس پر ہمارے اعتراضات تھے کیونکہ اس قانون سازی کے دوران ہمیں نہیں سنا گیا جس پر احتجاجاً ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ ہمارے نزدیک یہ اقدام غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر پارلیمانی تھا۔

سپیکر کی جانب سے ان تحفظات کو دور کرنے کے لئے اگر کمیٹی بنائی جاتی ہے تو پھر ہم ڈپٹی سپیکر کے خلاف یہ تحریک عدم اعتماد واپس لے رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بتایا کہ یہ بھی طے ہوا ہے کہ آئندہ ہاﺅس کی کارروائی میں غیر قانونی طریقے سے مداخلت نہیں ہوگی۔

لیڈر آف دی ہاﺅس اور اپوزیشن لیڈر سمیت تمام اراکین کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے لیڈروں کی تمام تقاریر میں غیر قانونی مداخلت نہیں ہوگی۔ پارلیمانی لیڈرز کا احترام کیا جائے گا اور ان کی تقاریر سنی جائیں گی۔ ایوان میں ذاتی حملے کرنے، رولز کا احترام نہ کرنے، ہاتھا پائی پر سخت تادیبی کارروائی ہوگی۔

بعد ازاں حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ حکومت اس ضابطہ اخلاق سے متفق ہے اور قانون اور پارلیمانی روایات کا ہم احترام کرتے ہیں۔