معاشی خود انحصاری

معاشی خود انحصاری

پٹرولیم کی ہوشربا قیمت نے ہر شہری کو بے حال کردیا ہے،کیونکہ اسکے اثرات عام آدمی پر براہ راست پڑتے ،اس کی بدولت روز مرہ کی اشیاء کی قیمت بڑھ جاتی ہے،مہنگائی میں غیر متوقع طور اضافہ ہو جاتا ہے،سرکار کا موقف درست بھی مان لیا جائے اس فعل کو آئی ایم ایف شرائط کے لئے لازم بھی سمجھا جائے تو یہ سوال اپنی جگہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ عالمی ادارہ کی انتظامیہ اپنی ظالمانہ پالیسیوں سے عام شہری کی حیاتی ہی کیوں تنگ کرنا چاہتی ہے، وہ مقتدر کلاس کی عیاشیوں پر قدغن کیوں نہیں لگاتی، وہ قرض جو سابقہ حکومتیں لیتی رہی ہیں انکے غلط استعمال کے باوجود کیوں مزید قرض فراہم کرتی رہی ہیں۔ عالمی ادارہ کا مقصد کمزور معیشت کو سہارا دے کر اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے لئے معاشی پالیسیوں میں رہنمائی دینا تاکہ ریاست معاشی خودانحصاری کی جانب راغب ہو سکے۔
کس قدر المیہ کی بات ہے وہ ہمسایہ ملک جو گذشتہ کئی دہائیوں سے حالت جنگ میں تھا اس کی کرنسی بھی ہمارے روپیہ سے زیادہ مضبوط ہے، مکران کے ساحل سے کر تربت کے پہاڑوں تک رخت سفر باندھ لیں یا شہرکراچی سے لے کر لنڈی کوتل تک گھوم لیں ، زرخیز سرزمین پر بے شمارنعمتیں ملیں گی، لہلاتے کھیت، سنگلاخ چٹانیں، سرسبز و شاداب میدان، بڑے صحرا، فلک بوس پہاڑ اللہ کی کبریائی بیان کر رہے ہوں گے، ان پر چرتے جانور،ندی نالوں میں بہتا صاف پانی،زمین سے پھوٹتے چشمے ،دنیا کا بہترین نہری نظام، قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال ریاست کے باوجود اس قوم کا ہر فرد عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے۔ملک کی غالب آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، اکثریت کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، اچھی اور اعلیٰ تعلیم ہر کسی بچے کا مقدر نہیں،ہر بجٹ میں صحت اور تعلیم کے لئے مختص  رقوم ہر شہری کے لئے ناکافی ہیں،اس ریاست میں تفریح کے مواقع بھی معاشرہ کی ایلیٹ کلاس کو میسر 
ہیں،بے روزگاروں کی فوج ظفر موج ہے نسل نو ڈگریاں ہاتھ میں لئے روزگار کی تلاش میں سر گرداں ہے،عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے چھت جیسی نعمت سے محروم ہے،تعلیم اورصحت کی عالمی سطح کی سہولیات ہر شہری کا خواب ہے، عدل و انصاف کی فراہمی، جان اور مال کا تحفظ ناگفتہ بہ ہے، امن و امان کی مخدوش صورت حال سب کے سامنے ہے۔
 ہمیں یہ اعتراف ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے باوجود ہم ایک آئیڈئل ریاست کے شہری نہیں بن سکے یہ کفران نعمت ہے جس کی سزا ہمیں اللہ تعالیٰ بھوک، خوف ،مہنگائی، ڈر اور عدم تحفظ کی صورت میں دے رہے ہیں۔اس نے ہمیں دنیا مسخر کر نے کی دعوت دی، اچھا اور ذمہ دار شہری بننے کی راہ دکھائی،لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آنے کا حکم دیا، دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے سے منع فرمایا،  معاشی مساوات قائم کرنے کا درس دیا، تعلیم کو عام کرنے کی تلقین کی، صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے پر ابھارا،قانون کی حکمرانی کو معاشرہ کی اولین ضرورت سمجھا، ظالم کا ہاتھ روکنے اور مظلوم کی مدد کرنے کا کہا، خواتین کو عزت اور توقیر کے ساتھ قومی ترقی میں شامل کرنے کی ترغیب دی۔ بحیثیت قوم خود داری، وقار سے دنیا میں اپنا قد کاٹھ اونچا رکھنے کا حکم دیا۔ ہم خوابوں کی دنیا میں مگن رہے، ہم نے قومی وسائل کی حفاظت نہ کی بلکہ اسکی لوٹ مار میں شریک رہے آج  بے بسی سے دنیا کے سامنے کشکول لئے پھر رہے ہیں، ایک ایٹمی قوت کے سربراہاں کی یہ تصویر پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ ایک وقت تھا جب دوسرے ممالک امداد کے لئے ہماری طرف دیکھتے تھے ،آج بھیک مانگنے کا منظر پورا عالم دیکھ رہا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب ہمارے قومی وسائل لوٹ مار سے چند ہاتھوں میں جارہے تھے ہم نے بحیثیت قوم اس سے صرف نظر کیا، جب اشرافیہ اپنے مفاد کے لئے سمیٹ رہی تھی ہم نے آنکھیںبند کر لیں ، باہر سے جو قرض ترقی کے نام پر لیا اسے اشرافیہ نے اپنے اللوں تللوں میں خرچ کردیا ،اب یہ مقام آن پہنچا ہے کہ کوئی ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں یہ صورت حال ایک حکومت کا کارنامہ نہیں سب ہی نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، بدعنوانی کو روکنے لئے یوں تو نت نئے ادارے بنائے گئے مگر مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی والا معاملہ ہی رہا۔ افسر شاہی ہو یا خاکی بیورو کریسی ،عدلیہ ہو یا سیاسی جماعتیں سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے کسی نے نہ سوچا کہ وہ دولت جس کو قومی خزانہ کا حصہ بننا تھا وہ اگر چند ہاتھوں میں جمع ہوتی رہی تو آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا، انھیں تو اپنے فرزندگان کے مستقبل کی فکر تھی، اب عوام کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اشرافیہ کی مراعات میں کمی کی جائے، انھیں عام شہری کی طرح رہنے پر مجبور کیا جائے۔
جب عام شہری پولیس، عدلیہ، انتظامیہ، خاکی بیوروکریسی کی بدعنوانیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے آگاہ تھے تو اس وقت کے حکمرانوں نے کیوں آنکھیں موند لیں کیا وہ بھی اگر شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے والی صورت حال سے دوچار تھے اور عوام بھی جذباتی طور پر سیاسی جماعتوں کے پیار میں اس قدر مگن رہے کہ آج یہ دن دیکھنا پڑا کہ متوسط طبقہ کو بھی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ارباب اختیار جتنا آئی ایم ایف کی غلامی میں غرق ہوتے جائیں گے اتنی ہی رسوائی قوم کا مقدر بنے گی، اس سے بچنے کا واحد راستہ خود انحصاری ہے قوم کے بہترین مفاد میں قومی سطح پر سادگی کو فروغ دیں، غیر ترقیاتی اخراجات پر فوری پابندی عائد کریں، پروٹوکول کی عیاشی کو ہر سطح کے لئے ختم کریں۔سبسڈی کلچر کو خیر آباد کہیں ،گورننس بہتر کریں اور بدعنوانی کو کسی صورت بھی برداشت نہ کریں اس کے لئے سخت سے سخت سزا کا اعلان کریں۔میثاق معیشت پر تما م سٹیک ہولڈز کو اعتماد میں لے کر وہ فیصلے کریں جو قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں۔ بد عنوان  مقتدر کلاس اور اشرافیہ کے برَوقت بے لاگ احتساب نہ ہونے کی غفلت عوام کی سزابن گئی ہے۔

مصنف کے بارے میں