حقیقی جمہوریت کے احیا کا خواب

حقیقی جمہوریت کے احیا کا خواب

ہماری سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے احیا کا خواب تو دیکھتی ہیں لیکن اس خواب میں رنگ بھرنے کے لئے نیند سے بیدار ہونے کے لئے تیار نہیںہوتیں۔ ظاہر ہے آسائشوں اور آلائشوں نے جن کے من سے جان نکال کر انہیں تن مردہ بنا دیا ہووہ خواب نہ دیکھے تو اور پھر کرے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی نام نہاد جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتیں اپنی جماعتوں میں بھی جمہوریت کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتیں۔ کہتے ہیں سیاست عبادت ہے کیونکہ سیاست انسانی خدمت سے عبارت ہے،  نظری طور پر تو یہ درست ہے لیکن عملی طور پر وطنِ عزیز سے ہمیں اس کا سراغ نہیں ملتا۔ ہماری سیاسی جماعتیں ملکی مروجہ سیاست میں اندرونی قوت سے زیادہ بیرونی طاقت پر انحصار کرتی ہیں کہ ہمارے ہاں ہر امپورٹڈ جنس کی طرح ولایتی پروانے کی قدر و قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے سیاسی و مذہبی رہنما آج کل ببانگِ دہل کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم امریکہ کو ناراض نہیں کر سکتے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست کا لبِ لباب ذاتی مفادات ہوتے ہیں جب کہ ڈھنڈورا قومی مفادات کا پیٹا جاتا ہے۔ہمارے ملک کے سیاست دانوں کو جمہوریت سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ہے، اس وقت ہمارے ہاں جو جمہوریت نافذ ہے اس کی چھوٹی سے جھلک ملاحظہ ہو۔ ہماری جمہوریت کا مطلب مادر پدر آزادی، ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹو اور مال بناؤ، جو جی میں آئے وہ کرو، قانون کا احترام صرف غریب پر لاگو ہوتا ہے، اپنی تجوریاں بھرنا، دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازنا، مجرموں کو پناہ دینا، کھلے عام قانون کی دھجیاں بکھیرنا، ایماندار آدمی کے لئے زمین تنگ کرنا، قومی خزانے کو اپنے اور اپنے چاہنے والوں کے لئے صرف کرنا، کروڑوں کے قرضے لے کر معاف کرانا اور نئے سرے سے نئے قرضے لینے کا آغاز کرنا، جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنا، ، غریبوں کو جیل میں ڈلوانا اور خود سزا ہونے کے باوجود نام نہاد ضمانتوں سے فائدہ اٹھا کر بیرونِ ملک منتقل ہو جانا، لوٹا بن کر حکومت میں شامل ہو جائیں تو 
اسے قومی مفاد کا نام دینا ورنہ پارٹی کا غدار کہلانا۔ ہمارے ہاں اسے ہی جمہوریت گردانا جاتا ہے۔ 
مزے کی بات ہے کہ جمہوری سیاسی پارٹیاں جتنی بھی ہیں وہ انتہائی غیر جمہوری ہیں پاکستان کی جمہویت بھی بادشاہت سے مشابہت رکھتی ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں میں گزشتہ 75 سال کا احاطہ کریں تو دیکھا جاتا ہے دادے سے پوتے پر سیاست آ چکی ہے جس کی مثال مفتی محمود کا خاندان اور نواز شریف کا خاندان سرِ فہرست ہے۔ میاں نوازشریف مارشل لاء کی پیداوار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد ہیں اور ان پر بد عنوانی ثابت ہو چکی ہے جس پر انہیں سزا بھی ہوئی لیکن انہیں مقتدرہ نے عدلیہ کے ساتھ مل کر لندن بھجوا دیا اور آج وہ لندن سے پاکستان کی حکومت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ شہباز شریف ان کا چھوٹا بھائی جن پر منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا ہے اور ان کا بیٹا ان کے ساتھ شامل ہے وہ وزیرِ اعظم اور ان کا بیٹا وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی موروثی سیاست کا گھڑ ہے۔ صرف ایک تحریکِ انصاف ہے جس میں موروثی سیاست نہیں ۔ اس طرح کئی دہائیوں کے بعد موروثی سیاستدانوں کو شکست ہوئی اور ایک عام آدمی عمران خان پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب ہو گیا۔ گزشتہ  4 دہائیوں سے یہ صورتحال تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے برسرِ اقتدار آنے والی دونوں پارٹیوں نے بھانپ لیا کہ اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ عمران خان کی طرف ہو گیا ہے تو انہوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر ایک تحریک چلائی اور عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ گزشتہ 40 سال کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ملک کو اتنا لوٹا کہ آج ملک دیولیہ ہونے کے قریب ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بھوک، بیروزگاری، بد امنی، تنگدستی، مہنگائی یہاں کے باشندوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ صورتحال پہلی دفعہ یہاں پیدا ہوئی کہ امریکہ نے اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، پاکستان کے میڈیا، پاکستان کے ا لیکشن کمیشن ، پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ملکی مفادات کی بات کرنے والے سیاستدان عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے  اقتدار سے باہر کر دیا۔  
آج سے دو تین مہینے قبل پاکستان کے زیادہ تر معاشی اشاریے بہتری کی جانب گامزن تھے اور مختلف کاروباری سیکٹرز سے اچھی خبریں سننے کو مل رہی تھیں۔ محکمہ شماریات کے اعداد و شماراس بات کے گواہ ہیں کہ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان کی مجموعی برآمدات کا حجم 23.30 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 22فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات میں ہوا  جس کا مجموعی حجم  14.26 ارب ڈالر رہا جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں تقریباً 22فیصد بنتا ہے۔ برآمدات میں اضافے کا یہ سلسلہ مارچ 2022ء تک جاری رہا اور مارچ میں 2.74 ارب ڈالر کی مجموعی برآمدات ہوئیں جو کہ پچھلے سال کے اسی عرصہ کے دوران ہونے والی برآمدات سے 16 فیصد زائد تھیں۔ لیکن سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تین ماہ کے عرصے میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے اور مہنگائی کی شرح میں تاریخی اضافے کی وجہ سے جہاں عام آدمی پریشان ہے، وہیں کاروباری برادری بھی دوبارہ مایوسی کا شکار ہو گئی اور بہت سے صنعتکاروں نے اپنے صنعتی یونٹس کی پیداواری استعداد بڑھانے کے لئے جو سرمایہ کاری کی تھی وہ بھی ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔ اپٹما کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بجلی اور گیس کے تعطل اور ان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے 25 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی ہے۔ فیصل آباد میں صورتحال یہ ہے کہ جو انڈسٹری تین ماہ قبل تک ہفتے میں ساتوں دن چل رہی تھی آج وہ انڈسٹری ہفتے میں دو دن یا پھر تین دن کام کر رہی ہے اور باقی دنوں میں بند رہتی ہے۔ میرے ایک جاننے والے بتا رہے تھے کہ ان کے مالکان نے اپنی پوری مل 15 دن کے لئے بند کر دی ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر صنعتیں رواں دواں رہیں گی تو مزدوروں کو روزگار ملے گی تب ہی ان کے گھروں کے چولہے جلیں گے۔ برآمدات میں جو کمی ہوئی ہے اس سے ملک کی معاشی حالت مزید دگر گوں ہو جائے گی۔ ہم نے صورتحال بھی دیکھ لی ہے کہ ہمارے بجٹ کو پاکستانی کے معاشی ماہرین نے تو رد کیا ہی تھا آئی ایم ایف نے بھی اسے قبول نہیں کیا ہے۔

مصنف کے بارے میں