بجٹ اور عوام

بجٹ اور عوام

وفاق نے سالانہ بجٹ پیش کردیا ہے اور اب صوبے بھی انہی مراحل سے گزر رہے ہیں جب کہ شہری بجٹ بھگت بھی رہے اور برداشت بھی کررہے ہیں۔ سالانہ میزانیہ درحقیقت ریاست کے اخراجات اور آمدنی کا حساب ہوتا ہے اور شہریوں کو یہ اطلاع بھی فراہم کردی جاتی ہے کہ ان پر اتنے ارب ڈالر غیرملکی قرضہ ہے اور اس پر کئی ارب ڈالر سود بھی واجب الادا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عوام کے لیے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ سرکار اخراجات ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں اور آمدنی کم ہوتی ہے ، خرچ اور آمدنی کے درمیان جتنا زیادہ فرق بڑھتا جائے گا، اتنا ٹیکس بڑھتا جائے گا،اس کے سوا عوام یا ٹیکس پیئرز کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں ہوتا۔موجودہ حکومت اپنے پیش کردہ بجٹ کو مشکل حالات میں متوازن قرار دے رہی ہے جب کہ اپوزیشن روایتی انداز میں اسے انتہائی فضول بلکہ ملک اور عوام کے لیے خطرناک بجٹ قرار دے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور ایف بی آر کے چیئرمین بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہم نے مشکل حالات میں بجٹ دیا ہے، آئی ایم ایف ہم سے ناخوش ہے لیکن ہم اس سے بات کریں گے کیونکہ مشکل فیصلوں کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ انھوں نے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں حالیہ اضافے کے بارے میں وضاحت کی ہے کہ تنخواہوں میں15فیصد اضافہ 2017 کی بنیادی تنخواہ پر ہوگا، اس کے بعد ایڈہاک الاؤنسز تنخواہ میں ضم ہوںگے، نیشنل پے اسکیل لینے والے تمام سرکاری ملازمین پر اضافے کا اطلاق ہوگا۔انھوں نے ایک اور وضاحت کی کہ ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن میں ابھی اضافہ نہیں کیا گیا ہے، البتہ اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نجی اداروں سے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پنشن پرانی ہی ملے گی، حالانکہ یہ طبقہ بھی اتنا ہی ضرورت مند ہے جتنا کہ سرکاری پنشرزہیں، بلکہ گریڈ بیس سے بائیس تک کے ریٹائرڈ افسران یا عہدیداران کی پنشن پہلے ہی لاکھوں میں ہے، ان کی پنشن میں اضافہ نہ بھی کیا جائے تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ ای او بی آ ئی کے پنشنرز تو غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی پنشن چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی ، حکومت کو اس حوالے سے ضرور غور کرنا چاہیے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مزید کہا ہے ماضی میں اتنا معاشی مشکل وقت نہیں دیکھا جتنا آج دیکھ رہا ہوں، امیر لوگوں پر ٹیکس لگانے کو فوکس کیا گیا ہے ان ممالک میں جہاں پاکستانیوں پر ٹیکس نہیں وہ اگر پاکستان میں ٹیکس دے دیں گے تو انھیں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا، ملک اس وقت مشکل میں ہے، ریذیڈنٹ پاکستانیوں کے بیرون ممالک منقولہ و غیر منقولہ اثاثوں پر بھی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ہمیں اپنی معیشت سدھارنا ہوگی، مسائل حل نہ کیے تو معیشت اتنا بوجھ نہیں اٹھا پائے گی۔ ان کی یہ دلیل وزنی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ووٹ کا حق مانگنے میں پیش پیش ہیں، اگر ان پر تھوڑا بہت ٹیکس لگ جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح وہ پاکستانی جو بیرون ممالک میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں رکھتے ہیں، ان پر بھی ٹیکس عائد ہونا چاہیے بلکہ انھیں تو رضاکارانہ طور پر حکومت کی مالی مدد کرنی چاہیے۔ وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹرول مہنگا کر کے پیسہ گھر نہیں لے کر جا رہے، پہلا ہدف ملک کو سری لنکا کی نہج پر جانے سے بچانا ہے۔ گیس میں نقصان ہو رہا ہے پتا نہیں چلتا، گیس چوری ہو جاتی ہے یا اڑ جاتی ہے، گیس کے شعبے میں400 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، 500ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ادا کیا۔ 1100ارب روپے بجلی کی مد میں سبسڈی دی۔ کسی فیکٹری کو بند نہیں ہونے دینگے۔ ملک کو انتظامی لحاظ سے ٹھیک کرنا پڑیگا، گیس اور پاور سیکٹر کی سبسڈی ختم کی ہے، اخراجات صرف 3 فیصد بڑھ رہے ہیں، مالیاتی پالیسی میں کچھ سختی آئیگی، ہم ملکی وسائل کا5 فیصد بھی استعمال نہیں کر پا رہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل سستا ہونے کا امکان نہیں، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی لگے گی تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا، فوج کا بجٹ بھی تحریری طور پر موجود 
ہے، کوئی چیز چھپا نہیں رہے۔ بجٹ میں کوشش کی ہے کہ امیروں سے زیادہ حصہ لیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، خوردنی تیل بہت مہنگا ہوگیا اس لیے آئل سیڈز پر مراعات دیں۔ 25 لاکھ دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔ یہ تو سارا حکومت کا موقف ہے ، اس کے برعکس اپوزیشن کا اپنا استدلال اور موقف ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے ثابت کیا ہے کہ ان میں کوئی اہلیت نہیں ہے، تین سال مہنگائی کا رونا رویا جاتا رہا، موجودہ حکومت کے پی ٹی آئی حکومت پر بڑے قرضے لینے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم پر قرضے لینے کا الزام غلط لگایا جا رہا ہے، ہم نے 52 ارب ڈالر قرضہ لیا اور اس میں سے 38 ارب ڈالر واپس 
بھی کیا، ہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم ترین سطح پر لے آئے تھے، عمران خان نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ڈیڑھ سال کا بجٹ ہے، یہ چند ماہ کا بجٹ موجودہ حکومت نے دیا ہے اور ایک سے ڈیڑھ مہینے میں یہ حکومت کے جہاز سے چھلانگ لگا دیں گے۔ موجودہ صورتحال کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ انتخابات کرا دیے جائیں۔ بجٹ کے حوالے سے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ مجھے تعجب ہوا ہے کہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولے گئے ہیں، میں ان کو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اعداد و شمار کو پڑھ لیا کریں، انھوں نے پیش گوئی کی کہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت کے ساتھ نہیں چلے گا، مہنگائی کی شرح 25 فیصد تک جائے گی، روس کو تیل کی خریداری کے لیے خط لکھ دیا گیا تھا، اسی کی بنیاد پر ان سے معاہدہ ہونا تھا۔ سابق وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ ہماری حکومت بجلی کی قیمت 16 روپے فی یونٹ چھوڑ کر گئی، اگلے ماہ کے اندر بجلی فی یونٹ 40 روپے تک ہو جائے گی۔ پٹرول کی قیمت 300 سے 310 روپے تک فی لٹرتک جائے گی۔ یہ تو حکومت اور اپوزیشن کے اپنے اپنے پوائنٹ سکورنگ کے معاملات ہیں، گراس روٹ لیول پر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے بعد ملک بھر میں تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے جس سے تعمیراتی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں، گزرے دودن میں سیمنٹ کی قیمت میں 70روپے فی تھیلہ اضافہ ہوا ہے جب کہ سریے ،ریت ، بجری اور اینٹیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ اگر صرف تین ماہ کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو سیمنٹ کے ایک تھیلے کی قیمت میں260 روپے تک کا اضافہ ہوچکا ہے۔ دوسری جانب سیمنٹ سپلائی کرنے والے ٹرانسپورٹرز کی غیر اعلانیہ ہڑتال سے سیمنٹ کی مارکیٹ میں سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ میڈیا کے مطابق سیمنٹ ڈیلرز کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کی طرف سے قیمت میں اضافے اور ٹرانسپورٹ اخراجات بڑھنے سے قیمتیں بڑھی ہیں۔ سیمنٹ کمپنیوں نے ٹرانسپورٹرز کو ادائیگیاں بھی نہیں کیں،جس کے باعث گڈز ٹرانسپورٹرز سیمنٹ نہیں لارہے۔ ادھر سریے کی قیمت 2لاکھ 16ہزار روپے فی ٹن سے بڑھ کر2لاکھ 20ہزارروپے ہوگئی ہے۔ اینٹوں کی قیمت 15000روپے فی ہزار تک پہنچ چکی ہے، چھوٹے شہروں میں قیمت کچھ کم ہے۔ تعمیراتی مٹیریل کے نرخ کون طے کرتا ہے ، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت تو ان کے نرخ طے نہیں کرتی ہے۔حکومت نے بجٹ پیش تو کردیا مگر مارکیٹ میں جس تیزی سے چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسے کون کنٹرول کرے گا۔حکومت صرف تنوروں پر روٹی کی قیمت کنٹرول کر رہی ہے،مگر صابن ،گھی اور روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لگتا ہے حکومت کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں رہا۔اگر پی ٹی آئی کی سابق حکومت پر مہنگائی کا الزام ہے تو یہ الزام موجودہ حکومت پر بھی فٹ آ رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں